کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 54
تعلیم وتعلّم پروفیسرمسز ثریا علوی یہ سیکولر نظام تعلیم ! استعماری طاقتوں تنے آغاز ہی میں یہ بات محسوس کرلی تھی کہ مسلمان اپنے پختہ کردار، جاندار روایات اور بہترین تعلیمی نظام کی بنا پر غلام نہیں بنائے جاسکتے۔ اگر وہ عارضی طور پر چالاکی و عیاری کے ذریعہ غلام بنا بھی لئے جائیں ، تب بھی ان میں خوئے غلامی پیدا نہیں کی جاسکتی۔ وہ صرف ربّ ِواحد کواپنا حاکم اعلیٰ سمجھتے ہیں اور کسی اپنے جیسے شخص کا غلام یا مفتوح بننا اپنی موٴمنانہ غیرت و حمیت کے منافی جانتے ہیں ۔لہٰذان غیر ملکی آقاؤں نے برصغیر ہندوپاک میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے اپنے مخصوص مفادات کا حامل انگریزی نظام تعلیم رائج کیا۔ یہ نظام تعلیم جو کئی برسوں کی مسلسل غورو فکر اور سوچ بچار پر مشتمل تھا،اسے ۱۸۳۵ء میں ”لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام“ کے نام سے نافذ کیا گیا۔ اس نظام کے اہم خدوخال مندرجہ ذیل تھے : ۱۔تعلیم کا اصل مقصد یورپی ادب اور یورپی سائنس کا فروغ ہے۔ ۲۔ذریعہ تعلیم انگریزی ہوگا۔ ۳۔سرکاری خزانے کی تمام رقم صرف اسی تعلیم کے لئے مختص ہوگی۔ ہندوستان کے پرانے تعلیمی اداروں کو جو تھوڑی بہت اِمداد دی جارہی ہے، اسے بالکل ختم کردیا جائے گا۔ ۴۔تعلیم کا مقصد یہ قرار دیا گیا کہ وہ سرکاری ملازمت کے لئے لوگوں کو تیار کرے۔ بالخصوصنچلی سطح کے انتظامی عملے (کلرک) کی فراہمی کابندوبست کرے۔ ۵۔ حقیقی اسلام کی تصویر مسخ کرکے غیر محسوس طریقے سے لادینیت کو فروغ دیا جائے۔ ساتھ ہی حکومت نے اعلان کردیا کہ ملازمت کے دروازے صرف ان لوگوں کے لئے کھولے جائیں جو نئی تعلیم سے آراستہ ہوں اور ان لوگوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بالکل بند کردیئے جائیں جو پرانے نظام تعلیم کی پیداوار ہوں ۔ میکالے نے اس موقع پر اپنی پالیسی کا مقصد صاف اور واضح انداز میں بیان کیا کہ ”ہمیں ایسی نسل تیار کرنا ہے جو دیسی آبادیوں کے لئے ہمارے افکار و نظریات کی ترجمان ہو۔