کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 50
اصرار کر کے بعض سہولتیں لینی چاہئیں تا کہ دینی مدارس میں تدریس اگر پرکشش نہیں تو کم از کم قابل قبول پیشہ تو بن سکے۔ طلبہ اس وقت عمومی کیفیت یہ ہے کہ والدین غربت کی و جہ سے اگر بچوں کی تعلیم وپرورش نہ کرسکیں یا بچہ خدانخواستہ معذور ہو جائے یا جدید تعلیم میں نہ چلے تواسے دینی مدرسے میں داخل کرا دیا جاتا ہے کہ چلئے اسی بہانے وہ مفت میں پل بھی جائے گا اورکچھ پڑھ لکھ بھی جائے گا۔ ایسے طلبہ سے کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قوم کی دینی رہنمائی کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاسکیں گے ۔ دوسری طرف دیکھئے کہ سی ایس پی افسر ، ڈاکٹر یاانجینئر بننے کے لیے چونکہ پرکشش تنخواہیں اور سنہری مستقبل کا خواب ہوتا ہے لہٰذا قوم کی کریم اوراس کے ذہین ترین افراد اِن شعبوں کی طرف چلے جاتے ہیں اوردینی مدراس کے حصے میں محض تلچھٹ ہی آتی ہے۔اس صورت ِحال پر غور کرنے بلکہ اس سے نکلنے کی فکر اورپلاننگ ہونی چاہیے تا کہ ذہین بچوں کو دینی تعلیم کی طرف آنے کے لیے راغب کیا جا سکے۔ اس کے لیے ہمہ جہتی اقدامات کی ضرور ت ہے جن میں سے بعض کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں ۔ مثلاً دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے روزگار کے مواقع وسیع کرنا،اچھے اساتذہ کا تقرر،دینی مدارس کے تعلیمی ماحول کو بہتر بنانا اور معاشرے کے کھاتے پیتے افراد کو ترغیب دلانا اور مطمئن کرنا کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لیے فارغ کریں ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بعض اوقات والدین مجبوری یا شوق وجذبات میں آ کر بچوں کو دینی تعلیم کی طرف دھکیل دیتے ہیں جب کہ بچے کا اپنا رُجحان اس کی طرف نہیں ہوتا ۔ ایسے بچے کا، ظاہر ہے،دینی تعلیم کے لحاظ سے کوئی مستقبل نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین صرف ان بچوں کو دینی تعلیم کی طرف بھیجیں جن میں وہ ضروری رجحان دیکھیں اور اپنی مجبوریوں یا شوق سے بچے کودینی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہ کریں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب بچہ سن شعور کوپہنچ جائے تو یہ حق اسے دیا جانا چاہئے کہ وہ مستقبل میں دینی تعلیم حاصل کرے گا یا نہیں ؟ اس طرح جو بچے اپنی خوشی اور شوق سے دینی تعلیم کی طرف آئیں گے، وہی مستقبل میں کچھ کر کے دکھائیں گے اور جو مارے بندھے آئیں گے، وہ بہت کم سیکھ سکیں گے۔ دینی مدارس کو بھی چاہیے کہ وہ اس نقطہ نظر سے اپنے طلبہ کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیں اورجن طلبہ میں دینی تعلیم کا رجحان نہ دیکھیں ، انہیں مدرسے سے فارغ کر دیں کیونکہ جو بچہ کسی مضمون میں شوق ودلچسپی نہ رکھتا ہو، وہ کچھ نہیں سیکھ سکتا۔