کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 5
نے علماء کو حالات کی نزاکت اور قومی مفادات کو سمجھنے کی ہدایت کی۔ ملاقات کافی حد تک خوشگوار رہی مگر دو دن بعد جب جنرل صاحب سی این این کو انٹرویو دے رہے تھے، تو ان کا لہجہ یکسر بدلا ہوا تھا۔ وہ ایک دفعہ پھر مختلف روپ میں سامنے آئے تھے۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کے شروع میں اتاترک کو اپنا ہیرو قرار دیا تھا۔ ( وہ اب بھی ترکی حکومت سے راہ ورسم بڑھانے میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔ ۱۰/ نومبر کو جنرل صاحب نے امریکی صدر جارج بش سے واشنگٹن میں خصوصی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ وطن لوٹتے ہوئے رستے میں ۱۲/نومبر کو وہ ترکی میں ایک دن کے لئے ٹھہرے۔ وہاں انہوں نے مذہبی انتہا پسندوں کو اس قدر سخت لہجے میں زجرو توبیخ فرمائی کہ نوائے وقت جیسے سنجیدہ اخبار نے بھی اس ڈانٹ ڈپٹ کو بلاو جہ کی اشتعال انگیزی قرار دیا۔ ۲۷/ دسمبر کو جنرل صاحب نے علماء و مشائخ سے ایک دفعہ پھر مفصل ملاقات فرمائی۔ اس موقع پر ایک دفعہ پھر انہوں نے میزبان کی حیثیت سے اس قدر حسن اخلاق اور مروّت کا مظاہرہ فرمایا کہ علماء چاہنے کے باوجود بعض حرف ہائے شکایات کوبھی زبان پر نہ لاسکے۔ انہوں نے یقین دہانی فرمائی تھی کہ دینی مدارس اور مذہبی تنظیموں کے خلاف حکومت کسی کریک ڈاؤن کا ارادہ نہیں رکھتی۔مگر چند دنوں میں ہی دینی مدارس اور مذہبی تنظیموں کے ہزاروں طلبا اور کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا اور ان کی کثیرتعداد آج تک زیر حراست ہے۔ ۱۷ پ جنوری کو علماء و مشائخ سے ایک بار پھر انہوں نے خوشگوار خطاب فرمایا جس میں یقین دلایا کہ وہ اسلام اور دینی مدارس کے خلاف نہیں ہیں ۔ ۱۲/ جنوری کو انہوں نے جو تقریر فرمائی، اس پر اظہارِ خیال ہم بعد میں کریں گے، پہلے دو واقعات کا تذکرہ ہوجائے جو جنرل صاحب کے بارے میں ایک دفعہ پھر الجھن اور پریشانی کا باعث بنے ہیں ۔ امریکی ہفت روزہ ’نیوزویک‘ (۲۲تا۲۸ جنوری) میں جنرل مشرف کا تفصیلی انٹرویو شائع ہوا ہے۔ نیوز ویک کے اس شمارے کا ٹائٹیل ان کی تصویر سے سجا ہے۔ اس انٹرویو میں ان سے منسوب یہ بیان بھی شائع ہوا : ”وہ (مشرف) اب بھی اتاترک کی تعریف کرتے ہیں ۔ لیکن ان کاکہنا ہے کہپاکستان ترکی سے زیادہ اسلامی رجحان کا حامل معاشرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے حقیقی نمونہ محمد علی جناح، بانی پاکستان کی ذات ہے جنہوں نے ایک جدید سیکولر (لادین) مسلم ریاست کا خواب دیکھا۔“ جنرل مشرف صاحب کے اس بیان پر شدید احتجاج کیا گیا تو دوسرے دن (۲۳/جنوری ۲۰۰۲ء) صدارتی ترجمان کی وضاحت شائع ہوئی: صدر نے ’نیوزویک‘کو انٹرویو میں یہ نہیں کہاکہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ فقرہ احتیاط سے پڑھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ سیکولر کا لفظ صدر نے نہیں ، انٹرویو کرنے والے ’نیوز ویک‘ کے نمائندے نے استعمال کیا لیکن بعض اخبارات نے صدر سے منسوب کردیا۔ “ ترجمان نے کہا کہ ”صدر نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ وہ قائداعظم کی خواہش کے مطابق پاکستان کو
[1] محدث میں اس پر انہی دنوں اس پر گرفت کی گئی تھی ، دیکھیں ’’پاکستان میں اتاترک ازم کا نفاذ ‘‘ مئی 2000ء