کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 48
کتابوں پر حاشئے اور شرحیں لکھی جانے لگیں تواستاد بھی یہ شرحیں اورحواشی پڑھنے لگے اوراصل کتابیں پس منظر میں رہ گئیں ۔
ابتدائی تعلیم مساجد یا ابتدائی مکاتب میں جنہیں کُتَّاب کہا جاتا تھا،دی جاتی تھی۔ یہاں قرآن حکیم اورلکھنے پڑھنے کی ابتدائی مہارتیں سکھائی جاتی تھیں ۔ اساتذہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے اور طلبہ کو مار بھی پڑتی تھی۔ ابن خلدون نے اپنے مشہور ِزمانہ مقدمہ کی ایک فصل میں قرآن کے طرقِ تدریس پر بحث کی ہے کہ عالم اسلام میں عموماً بچے کو قرآن چھوٹی عمر میں پڑھا اوررَٹادیا جاتا ہے جب کہ اسے کچھ سمجھ نہیں ہوتی لیکن مغرب ِعربی خصوصاً اَندلس میں یہ طریقہ رائج ہے کہ بچے کو پہلے زبان پڑھائی جاتی ہے اورجب وہ زبان کی باریکیوں کوسمجھنے لگتا تو پھر اسے قرآن پڑھایا جاتا ہے تا کہ وہ ا سے اچھی طرح سمجھ کر پڑھے۔ ابن خلدون نے قاضی ابن ُالعربی کی کتاب الرحلةکے حوالے سے قاضی صاحب کے موٴخر الذکر طریقے کو راجح سمجھنے کے رجحان کوخود بھی پسند کیا ہے بشرطیکہ اس اَمر کا یقین ہوکہ بچہ تعلیم جاری رکھے گا۔ ورنہ والدین اس ڈر سے کہ بڑا ہو کر بچہ نہ معلوم، تعلیم جاری رکھے تو کم از کم قرآن تو پڑھا ہوا ہوکیونکہ والدین اپنے بچوں کوقرآن کی تعلیم دینا اپنی اخلاقی ودینی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔[1]
مختصر یہ ہے کہ ہمارے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ طرقِ تدریس کوئی جامد اور مقدس چیز نہیں ۔ یہ زمانے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اور اسے آج بھی بدلا جا سکتا ہے۔ دنیا میں ثانوی زبان سیکھنے پر پچھلی ایک دو صدیوں میں بہت سے تجربات ہوئے ہیں ، لہٰذا ان سے استفادہ کرنے میں کوئی عیب نہیں مثلاً عربی سیکھنے میں طریق مباشر(Direct Method) سے کام لینا یا جدید آلات مثلاً مختبر اللغةاور دیگر سمعی وبصری آلات اور کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال کرنا یا امتحان میں سمسٹر سسٹم (عرصہٴ تدریس کو مختصر مراحل میں تقسیم کر کے تین چار ماہ بعد امتحان لے لینا) اور معروضی سوالات کورواج دینا تا کہ طلبہ کی سال بھر کی محنت کے نتائج کا انحصار صرف تین گھنٹے کے پرچے پر نہ ہو جو در حقیقت صرف حافظے کا امتحان ہوتا ہے او رجس میں دوسری صلاحیتیں دَب کر رہ جاتی ہیں ۔
اساتذہ
اساتذہ کسی بھی تعلیمی ادارے کی جان ہوتے ہیں ۔ نصاب اگر ناقص بھی ہو تو ایک اچھا استاداس کی کمی پوری کر سکتا ہے لیکن اگر استاد نالائق ہو تو اچھا نصاب بھی اس کے لیے بیکار ِمحض ہے ۔ استا د کی یہ اہمیت اس وجہ سے ہے کہ طلبہ ،شعوری اورغیر شعوری طورپر،استادکوماڈل سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی میں استاد کی شخصیت اس کے کردار، عادات اور رویوں کی نقل کرتے ہیں ۔ لہٰذا جس طرح کا استاد ہو گا اسی طرح
[1] ابن خلدون ،مقدمہ طبع قاہرہ، ۱۳۸۲ء (باب ششم، فصل ۴۰) ج ۴ ص ۱۲۳۹