کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 47
کئی ترمیمات تجویز کیں او ر قدیم علومِ عقلیہ کو کم کر کے انگریزی اور علومِ جدیدہ کو اس میں شامل کرنے کی سفارش کی مگر بعض وجوہ سے اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہ ہوسکا۱[1] تا ہم اس کی ضرورت برابر محسوس کی جاتی رہی[2] …پاکستان بننے کے بعد در سِ نظامی میں معمولی تبدیلیاں ہوئی ہیں چنانچہ دینی تعلیم کے موجودہ وفاقوں کے نصاب پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ معقولات پر زور کم ہوا ہے اورقرآنِ حکیم کے مکمل ترجمے کو شامل نصاب کر لیا گیا ہے ۔[3]
وقت اور حالات کے بدلنے کے ساتھ نصاب کے بارے میں ہمارے اہل علم وفکر کی رائے کس طرح بدلتی ہے، ہم اس کی ایک دو مثالیں مزید دے کر اب بحث کوختم کرتے ہیں:
علم ھندسہ کے بارے میں ابن خلدون نے کہا ہے کہ اس سے انسانی صلاحیتوں کوجلا اوراس کے جذبہ صدق وصفا کو استحکام ملتا ہے ۔[4] اس کے برعکس اس علم کے بارے میں حضرت مجدد اَلف ِثانی کی رائے یہ ہے کہ علم ہندسہ بیکاراورمہمل علم ہے۔[5]…فقہ صدیوں سے مسلم معاشرے میں اسلامی علوم کا ایک ستون ہے لیکن امام غزالی نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ کہ یہ علم مصالح دنیا ہے۔ [6]… تصوّف کی کتابیں بھی صدیوں ہمارے مدارس میں پڑھائی جاتی رہی ہیں لیکن ہندوستان کے عظیم درویش صفت حکمران عالمگیر نے مجدد صاحب کے خطوط پڑھنے پر پابندی لگا دی[7]اورصوفی محب اللہ کی کتاب تسویہ کو جلانے کا حکم دیا تھا یہاں تک کہ دیوبند میں مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے صوفیوں کی موجودگی کے باوجود کتب ِتصوف کو دیوبند کی درسیات میں جگہ نہ مل سکی۔
طریقہ تعلیم وتدریس میں تغیر وتبدل
صدرِاوّل میں تعلیم مسجد میں اور زبانی ہوتی تھی۔ استاد در س دیتا تھا اوریاد کرنے والی نصوص خصوصاً احادیث کو تین دفعہ دہراتا تھا تاکہ طلبہ کو یاد ہو جائیں ۔ اس غرض کے لیے ایک مُعید (دہرانے والا) بھی ہوتا تھا جواُستاد کی مدد کرتا تھا۔ لکھنے کی سہولت جب عام ہوئی تویہ طریق تلقین، طریق املا میں بدل گیا۔ اب طلبہ استاد کے لیکچر کے نوٹس لے لیتے تھے اوریہ نوٹس بعض اوقات کتابی صورت میں جمع کردیئے جاتے تھے۔ (ابو علی کالی اور سید مرتضی کے اَمَالِی، دراصل ان کے دروس اور لیکچر ہی ہیں ) عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر جب طالب علموں کے لیے کتابوں کا حصول عام ہو گیا تو تدریس کتابی صورت اختیار کر گئی ۔ اب استاد لیکچر کی بجائے کتاب پر اعتماد کرتا۔ طالب علم کتاب پڑھتا جاتا اور اُستاد مشکل مقامات کی شرح کرتا جاتا یا طلبہ کے سوالات کا جواب دے کر مسائل واضح کر دیتا۔ پھر ایک زمانے میں جب ان
[1] مولانا زین العابدین سجاد،ہندوستان کے عربی مدارس … درمجلہ ”اسلام اورعصر جدید“ دہلی جنوری ۱۹۷۰ء ،ص ۴۴
[2] تفصیل کے لیے دیکھئے: ۱) مولانا محمد طیب ،دار العلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی
۲) مولانا سید محمد میاں ،علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے جلد اول ۳) مولانا مناظر احسن گیلانی ،سوانح مولانا محمد قاسم نانوتوی
۴) ضیاء الحسن فاروقی ،دیوبندی مکتبہ فکر اور مطالبہ پاکستان ۵) سید محبوب رضوی ،تاریخ دارالعلوم دیوبند
۶ ) ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ،برساتی ہندوستان اور مدارس دار العلوم دیوبند ، در سہ ماہی المعارف شمارہ جنوری تا مارچ اور اپریل تا جون ۱۹۶۸ء
[3] پاکستان میں درس نظامی کے مالہ وماعلیہ کے لیے دیکھئے: ۱) ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ،دینی مدارس کا نصابِ تعلیم اور جدید تقاضے المحمود اکیڈمی لاہور ۱۹۹۵ء
۲) سہ ماہی ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ کا خصوصی شمارہ ،جولائی ۱۹۹۸ء
[4] ابن خلدون ،مقدمہ، فصل فی ابطال الفلسفہ
[5] مجدد الف ثانی ،مکتوبات ،دفتر اوّل ،مکتوب نمبر ۲۶۶ نیز دفتر سوم مکتوب ۲۳
[6] غزالی ،احیاء علو م الدین ،طبع قاہرہ ج ۳ ص ۲،۱۱
[7] غلام علی آزاد، مآثر الکرام، ص ۸۴،۸۹