کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 46
ظاہر ہے اس فہرست میں دینی علوم کے علاوہ تقریباً اتنے ہی مضامین معاون اورعصری علوم کے ہیں جن میں سماجی اور سائنسی علوم دونوں شامل ہیں ۔ اسی زمانے میں فارسی کوسرکاری زبان قرار دیا گیا اور سنسکرت کی تدریس بھی شروع ہو گئی اوربقول شبلی، موسیقی بھی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی تھی۔[1] شاہ ولی اللہ (م ۱۷۶۲ء) نے علم حدیث کو مروّج کرنے کی کوشش کی اورمعقولات پر مزید زور دیا ۔[2] ملا نظا م الدین(۱۷۴۷ء) نے جونصاب بنایا ،جو آج درسِ نظامی کے نام سے مشہور ہے، اس میں تفسیر، حدیث ،فقہ واُصولِ فقہ، کلام کے علاوہ صرف ونحو، بلاغت ،منطق ،فلسفہ اور ریاضی شامل تھے۔ اس نصاب میں قرآن وحدیث کاحصہ بہت تھوڑا تھا۔ سیرت، تصوف، معاشرتی علوم وغیرہ موجود نہ تھے اورمعقولات پر زور تھا۔ تا ہم اس میں بھی تبدیلیوں کا عمل جاری رہا۔ ملا نظام الدین کی وفات کے بعد اِس میں مناظرہ، اُصولِ حدیث،ادب اورفرائض کے مضامین کا اضافہ کیا گیا۔ جب ۱۸۷۶ء میں دیوبند قائم ہوا تو وہاں بھی درسِ نظامی ہی رائج ہوا لیکن مولانا قاسم نانوتوی اورمولانا رشیدگنگوہی نے دیوبند میں رائج درسِ نظامی کو مختصر کرنے کافیصلہ کیا اورفارسی کے علاوہ منطق وفلسفہ کی پرانی کتابیں نصاب سے خارج کردیں ۔ اور مدت تدریس دس کی بجائے چھ سال کر دی، تا کہ طلبہ درسگاہ سے جلد فارغ ہو کر جدید تعلیم بھی حاصل کریں ، مولانا کے الفاظ یہ تھے”اس کے بعد (مدرسہ میں دینی تعلیم کے بعد) اگرطلبہ مدرسہ ہذا ،مدارسِ سرکاری میں جا کر علومِ جدیدہ حاصل کریں توان کے کمال میں یہ بات زیادہ موٴثر ہو گی۔“ اور مولانا گنگوہی نے اس موقع پر کہا تھا :” اس منطق وفلسفہ سے تو انگریزی بہتر ہے کہ اس سے دنیا کی بہتری کی تو امید ہے۔“ لیکن روایتی علما کے احتجاج پر انہیں پرانا نظام بحال کرنا پڑا۔[3] شبلی، [4]اورمولانا ابو الکلام آزاد [5]کے علاوہ خود حلقہ دیوبند کے اپنے لوگوں میں سے مولانا مناظر احسن گیلانی،[6]مولانا سعید احمد اکبر آبادی،[7] قاضی زین ا لعابدین سجاد[8]اور دوسرے بہت سے علما درسِ نظامی کے موجودہ نصاب پر علیٰ الاعلان تنقید کرتے رہے ہیں ۔ بلکہ مولاناعبیداللہ سندھی (م ۱۹۴۵ء) نے تو دہلی میں باقاعدہ ایک ادارہ نظارة المعارف کی بنیاد رکھی تا کہ دیوبند اور علی گڑھ کے تعلیمی اداروں کویکجا کیا جاسکے۔[9] خود دار العلوم نے ۱۹۲۸ء میں اعلان کیا تھا کہ فلسفہ کی جدید کتابوں کو داخل درس کیا جائے گا لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔[10] مولانا حسین احمد مدنی کے آخری زمانے میں پھر نصاب پر نظر ثانی کی تحریک شروع ہوئی اوردارُالعلوم کی مجلس شوریٰ نے باضابطہ ایک کمیٹی کی تشکیل اس مقصدکے لیے کی جس نے نصاب میں
[1] بدایوانی ،منتخب التواریخ ج ۱ ص ۳۱۵ وبعد و محمد حسین آزاد ،دربار اکبری ص ۶۷۳، ۶۷۴ [2] شبلی نعمانی، مقالاتِ شبلی ج ۳ ص ۱۲۴ [3] مولانا مناظر احسن گیلانی ،سوانح مولانا قاسم نانوتوی ج ۲ ص ۲۹۹بحوالہ دیوبند کی سالانہ رپورٹ برائے سال ۱۸۷۰ء [4] شبلی ،مقالاتِ شبلی ج ۳ [5] ابو الکلام نے نہ صرف تذکرہ میں درسِ نظامی پر تنقید کی ہے بلکہ ۱۹۱۶ء میں جدید نصاب کی تدوین بھی کی (بحوالہ مولانا غلام رسول مہر در تبرکاتِ آزاد،اسی طرح انہوں نے ۱۹۴۶ء میں ایک کمیٹی بنائی ،جس میں مولانا حسین احمد مدنی،مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے جدید نصاب تیار کر بھی لیا جس کا ایک نسخہ رام پور لائبریری میں آج بھی محفوظ ہے ، بحوالہ عابد رضا بیدار ،ہندوستانی مسلمانوں کی ریفارم کے مسائل [6] مولانا مناظر احسن گیلانی سوانح قاسمی ج ۲ ص ۲۹۳،۲۹۴ [7] مولانا کے الفاظ یہ ہیں :”علو مِ دینیہ کی تعلیم کے لیے جو کتابیں اور جس ترتیب سے رکھی گئی ہیں وہ مقصد کے حصول کے لیے کافی نہیں ہیں ، پھر ان کا جوطریق تعلیم ہے وہ بھی ناقص ہے ۔“ [8] مولانا زین العابدین سجاد،ہندوستان کے عربی مدارس اور ان کے نصابِ تعلیم پر ایک نظر درمجلہ ”اسلام اورعصر جدید“ دہلی جنوری ۱۹۷۰ء ،ص ۴۱ [9] اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ ،پنجاب یونیو رسٹی ،لاہور ج ۱۲ ص ۹۸۴ [10] مجلہ ’القاسم‘ دیوبند کا دار العلوم نمبر: محرم، ج ۱۳۴۷ھ ،ص ۴