کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 44
دفتری اُمور ، ابتدائی حسابات ، تدریسی مہارت(سی ٹی ،بی ایڈ کی طرز پر ) چھوٹے موٹے بزنس وغیرہ۔ بڑے شہروں میں دینی مدارس انڈسڑی کے ساتھ رابطہ کر کے گرمیوں کی چھٹیوں میں یا شام کی شفٹ میں طلبہ کو اضافی کام دلوا سکتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ پہلے خود دینی مدارس یہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنے طلبہ کے لیے مسلک کے مدارس ومساجد کے باہر رِزق کے دروازے کھولنے کے لیے تیار ہیں ۔ ہمارے خیال میں اس طرح کے مواقع پیدا ہونے سے دینی کاز کو ان شاء اللہ نقصان نہیں پہنچے گا۔ جیسا کہ ماضی میں دیوبند میں طب ،جلد سازی اورخطاطی وغیرہ کے شعبے قائم کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ تغیر نصاب او رعلماء کی مخالفت نصاب اور اس کے متعلقات کے حوالے سے ایک بنیادی بات پر غور کر لیں او ر یہ کہ ہمارے علما کرام آخرکیوں درسِ نظامی پر نظر ثانی کرنے اورعصری ضرورتوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے…؟ اس کی وجہ بعض لوگ تو یہ بتاتے ہیں کہ اس سے علما کی اجارہ داری خطرے میں پڑجائے گی،یہ ان کے رزق کامسئلہ ہے،مدرسے دینی اوردینی+سیاسی جماعتوں کے لیے قوت کا مرکز ہیں ، وہ اِن پر سے اپنی گرفت ڈھیلی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں وغیرہ ،وغیرہ۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کا بڑا سبب اقبال کے لفظوں میں یہ ہے کہ آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں علما اگر وسعت اوربلند نگاہی سے کام لیں تویہ کوئی ایسا بھاری پتھر بھی نہیں جسے اُٹھایا نہ جا سکے ۔ اور کوئی ایسی ضرورت نہیں کہ علماء کے خلوص پر لازماً شک وشبہ کا اظہار ہی کیا جائی۔ ہم صرف ان کی تذکیر (یاددہانی) کے لیے عرض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاں ماضی میں کبھی نصاب ِتعلیم جامد نہیں رہا بلکہ یہ ہمیشہ بدلتا رہا ہے اور عصری ضرورتوں کے مطابق بہت سے معاوِن علوم بھی دینی نصاب تعلیم کا حصہ رہے ہیں ۔ نیز طریقہ تدریس تعلیم بھی بدلتا رہا ہے ۔ یہ مقدمات جو ہم نے قائم کئے ہیں ، ہم چاہیں گے کہ ان پر کچھ مزید روشنی ڈالیں : نصاب ِتعلیم میں تنوع اور تغیر پذیری…چندتاریخی نظائر عہد ِرسالت وصحابہ میں دینی نصاب ِتعلیم کا ایک ہی باقاعدہ مضمون تھا اوروہ تھا قرآن حکیم یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی والدین کو یہ ہدایت سامنے آتی ہے کہ