کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 41
ضرورت ہو تو وہ بر وقت مہیا کر دی جائے ۔اس غرض کے لیے چیف مربی یا مہتمم کو چاہیے کہ وہ تربیت کے انچارج اساتذہ سے ان کی کارکردگی بسلسلہ تربیت طلبہ کی ماہانہ رپورٹ طلب کرے اور مسائل ومشکلات میں اُن کو ضروری مشورے دے ۔اگر کافی تعداد میں طلبہ تربیت میں کمزور ہیں تو استادکی پر سش ہونی چاہیے اور اسے تنبیہ کی جانی چاہیے بلکہ اس کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ میں بھی اس کا اِندراج ہونا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ دینی مدارس کے مُھتممین اور منتظمین کو اس امر کی فکر کرنی چاہیے کہ ان کی ذمہ داری محض دینی تعلیم دینا نہیں بلکہ اخلاق وآداب سمیت مکمل دینی شخصیت کی آبیاری کرنا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو عند اللہ مسؤ ل ہوں گے ۔“ ۲۔تحقیق آج کل کی جدید تعلیم میں ایم اے (عالمیہ) ہی سے تحقیق کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ساری تعلیم (ایم فل ،پی ایچ ڈی وغیرہ ) تحقیق پر ہی مبنی ہوتی ہے ۔دینی مدارس میں تحقیق کو عموماً اہمیت نہیں دی جاتی ۔طالب ِعلم دورۂ حدیث کرکے فارغ ہو جاتا ہے مگر اسے تحقیقی اصولوں کا پتہ ہوتا ہے اورنہ اُسے تحقیق کی کوئی عملی مشق ہی کروائی جاتی ہے۔ بعض بڑے دینی مدارس میں تخصص کاذکر سننے میں آتا ہے لیکن وہ بھی عموماً روایتی انداز میں ، لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ تحقیق کو باقاعدہ داخل نصاب کیا جائے۔ ہر اُستاد چھوٹے چھوٹے مقالے لکھوا کر طلبہ کو تحقیق کی مشق کروائے۔ آخری سال کے شروع میں ہرطالب علم اپنے موضوعِ تحقیق کی تسجیل (رجسٹریشن) کروائے اورجب تک وہ تحقیقی مقالہ اُستاذ کی تسلی کے مطابق مکمل نہ کرے، اُسے سند جاری نہ کی جائے۔ اس کے بعد تخصص کو رواج دیا جائے اورایم فل اورپی ایچ ڈی کی طرح ریسرچ ڈگریوں کو رواج دیا جائے۔ظاہر ہے اس وقت جو نصاب مروّج ہے، اس میں رہتے ہوئے یہ گنجائش نہیں نکالی جا سکتی، البتہ ہماری تجاویز کے مطابق اگر نصاب کے سارے ڈھانچے پر اَز سر نوغور کیا جائے تو تحقیق کو جزو ِنصاب بنایا جا سکتا ہے ۔ یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ تحقیق کو جز بنانا غیروں کی تقلید ہے بلکہ ہمارے اَسلاف نے تحقیق کا جو معیار قائم کیا ہے اورجس طرح عمریں تحقیق وتالیف میں صرف کی ہیں ، وہ ہمارے لیے ایک قابل فخر نمونہ ہے ۔ لہٰذا تحقیق کو جز وِنصاب بنانا ،طلبہ میں علمی وتحقیقی ذوق پروان چڑھانا اوراس کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا اپنے اَسلاف کی علمی روایت کو زندہ کرنے کے مترادف ہے ۔ بلکہ اس میں کوتاہی کرنا دوں ہمتی ہے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں ’نکو‘ بننے کے مترادف ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ تحقیق محض اپنے مسلک کو سچا ثابت کرنے کے لیے دلائل جمع کرنے کا نام