کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 40
چیکنگ کاموٴثر انتظام ہونا چاہیے۔ “
” تربیت کی جانچ (امتحان) کا نظام‘‘[1]
جس طرح تعلیم میں طالب علم کی لیاقت جانچنے کے لیے امتحانوں کا ایک باقاعدہ نظام موجود ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا طالب علم کتنا سیکھ رہا ہے اور ان امتحانوں ہی کی وجہ سے طلبہ اوراساتذہ کو خصوصی تیاری کا موقع ملتا ہے ۔ اسی طرح تربیت کے کام کی جانچ کا بھی ایک نظام ہونا چاہیے …ہم اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کرتے ہیں:
(۱) تربیتی گراف کا طریقہ اپنائیے جس کی تفصیل یہ ہے :
ا ․ ہر مربی کلاس ٹیچر اپنی کلاس کا ایک تربیتی گراف بنائے جس میں طلبہ کے نام موجود ہوں ۔
ب․ اچھی کارکردگی کی صورت میں اضافی نمبر دیئے جائیں اورکمزوری دکھانے کی صورت میں نمبر منہا کر دیئے جائیں مثلاً اگر بنیادی نمبر ۱۰۰ ہوں تو جو طالب علم باقاعدگی سے نماز پڑھے، اسے ۲ نمبر دئیے جائیں اس طرح اس کے نمبر ۱۰۲ ہو جائیں گے اورجو طالب علم نماز نہ پڑھے تو اس کے ۲ نمبر منہاکر دیئے جائیں یعنی اس کے ۹۸ نمبرہوجائیں ۔ اس طرح مختلف کمزوریوں مثلاً جھوٹ بولنا، گالی دینا ، جھگڑا کرنا ،تاخیر سے سکول آنا اوروقت کی پابندی نہ کرنا وغیرہ ان میں سے ہر ایک کے دو نمبر ہوں اور ان کے ارتکاب پر اتنے نمبر کاٹ لئے جائیں اوراس کے برعکس اخلاقِ حسنہ کے بھی نمبر ہوں جو اس کے گراف میں جمع کر دئیے جائیں ۔ اس طرح ہر طالب علم کومعلوم ہوتا رہے گا کہ اس کی اخلاقی حالت کیسی ہے ؟
ج․ ایسا تربیتی گراف نمایاں طور پر ہر کلاس میں آویزاں ہو تا کہ طلبہ اپنے نمبروں کی کمی بیشی سے آگاہ رہیں ، جن کے نمبر کم ہو جائیں وہ اپنی اخلاقی کمزوری دور کر کے اپنے کم شدہ نمبر بڑھانے کی کوشش کریں اورجن کے نمبر زیادہ ہوں ، وہ انہیں مزید بڑھانے کے لیے کوشاں ہوں ۔ اس گراف میں جس طالب علم کے نمبر ایک مقررہ حد سے کم ہو جائیں ، اسے تربیت کے پرچے میں فیل گردانا جائے او ر اگلی کلاس میں نہ بھیجا جائے۔ جس لڑکے کے نمبر سب سے بڑھ جائیں ،اُسے حوصلہ افزائی کا انعام دیا جائے یا سکول کا مثالی لڑکا قرار دیا جائے۔
د․ اس طرح کا گراف ہر طالب علم کی پرسنل فائل میں بھی موجود ہو اورکلاس روم میں درج ہونے والی معلومات وہاں بھی ریکارڈ کی جائیں ۔ تا کہ بوقت ِضرورت کام آئے مثلاً بچے کے والدین کو دکھانے کے لیے یا فائل دیکھتے ہوئے بچے کی اخلاقی حالت کا اعادہ کرنے کے لیے ۔
(۲) تربیتی گراف کوسامنے رکھتے ہوئے طلبہ کا سالانہ امتحان بھی لیا جائے او راس کے باقاعدہ نمبر ہوں جو طالب علم کے فیل یا پاس ہونے پر اثر اندازہوں۔ ایک طالب علم اگر تربیت میں فیل ہو تو اسے سارے مضامین میں فیل تصور کیا جائے اور اگلی کلاس میں ترقی نہ دی جائے ۔
(۳) مربی اساتذہ کا احتساب اور چیکنگ بھی ہونی چاہیے تاکہ اگر ان کو مدداور رہنمائی کی
[1] نفس المرجع ص ۴۸،۵۰