کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 4
آپ جمالی کہہ سکتے ہیں ۔ ان کی شخصیت کا ایک اور اُسلوب، ایک اور انداز اور ایک اور طرزِ سخن ہے جس کامظاہرہ عام طور پر وہ بین الاقوامی میڈیا کے سامنے کرتے ہیں ۔ شعوری یا لاشعوری طور پر وہ بیرونی دنیا میں اپنا اس طرح کا امیج (Image) بنانے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں جسے مغربی دنیا دیکھنا چاہتی اور پسند کرتی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ نے اسلام پسندوں کوبنیاد پرست اور دہشت گردوں کے روپ میں پیش کیا ہے، اس لئے وہ کسی ایسے حکمران کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو اسلام سے والہانہ وابستگی کا اظہار کرے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے دینی مدارس کو دہشت گردوں کی نرسریاں ہونے کا اس قدر پراپیگنڈہ کیا ہے کہ ان کے متعلق معمولی سی تعریف بھی ان کی ناراضگی اور خفگی کا باعث بن جاتی ہے۔ جنرل مشرف صاحب مغربی ’بیل‘ کے مزاج کو بخوبی سمجھتے ہیں ، اسی لئے وہ اسے اسلام کا سرخ رومال (Red Rag) دکھا کر کسی بھی طور پر مشتعل نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ جب بھی مغربی ذرائع ابلاغ کے سامنے آتے ہیں ، خالصتاً اسلام کی بات نہیں کرتے، بلکہ وہ ہمیشہ ترقی پسندانہ، لبرل، متحمل مزاج اور روشن خیال اسلام کی بات کرتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر وہ دین پسندوں کی بھی خوب خبر لیتے ہیں ، وہ دین پسندوں کو بلا استثنا انتہا پسند قرار دے کر ان کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان فرماتے ہیں ۔ وہ اہل مغرب کو باربار یقین دلاتے ہیں کہ وہ پاکستان سے مذہبی انتہا پسندوں کا صفایا کرکے دم لیں گے۔ وہ صفائیاں دینے میں تمام تر توانائی ضائع کرتے ہیں کہ پاکستانی ایٹم بم کے مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ انہیں یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کی اکثریت روشن خیال، لبرل اور ترقی پسند مسلمانوں پر مشتمل ہے، یہاں راسخ الاعتقاد مسلمان نہیں بستے۔ یورپ و امریکہ کے روشن خیال،جنونی پادریوں کے ظلم و ستم کو آج تک نہیں بھولے، وہ ہر مذہبی ریاست کو تھیو کریسی یا مذہبی پیشوائیت سمجھ کر اس کے خلاف شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہیں ۔ وہ پاکستان میں جہادی تنظیموں کے بڑھتے ہوئے رسوخ کو دیکھ کر ہمیشہ پاکستان میں ’تھیوکریسی‘ کے موہوم خطرات کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ جنرل مشرف صاحب انہیں ہر بار یقین دلاتے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں پاکستان تھیوکریٹک سٹیٹ نہیں بنے گا۔ ۵/جون ۲۰۰۱ء کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والی سیرت کانفرنس میں جنرل صاحب نے عالمی میڈیا کے سامنے پہلی دفعہ علماے دین کو سخت ڈانٹ پلائی تھی اور تمام علما کو انتہا پسندی سے باز رہنے یا پھر سخت اقدامات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دی۔ چند ماہ پہلے انہوں نے ایک روسی اخبار کو انٹرویو دیا تو ایک دفعہ پھر پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں کو اپنے ’خصوصی التفات‘ کے قابل سمجھتے ہوئے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے ترقی پسندانہ اسلام کا اِعادہ فرمایا۔ ۱۱/ ستمبر کے بعد پہلی مرتبہ جنرل صاحب نے ۱۶/اکتوبر کو علما اور مشائخ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں