کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 38
کروایا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستانی طالب علم کو یورپ، امریکہ اورعرب دنیا وغیرہ میں ہر جگہ داخلہ لینے میں مشکل پیش آتی ہے ۔ دوسری طرف دبئی میں ایک تجربہ ہوا ہے جس میں سولہ سالہ گریجویشن کورس محض دس برسوں میں ختم کروایا جاتا ہے ۔ اس طریقے میں سال کے بارہ مہینے صبح شام پڑھائی ہوتی ہے۔ او ر بچے کی عمر کے چھ قیمتی سال بچالیے جاتے ہیں ۔ دینی مدارس میں اس وقت جو نظام رائج ہے، وہ یہ ہے کہ آٹھ سال تک تعلیم حاصل کئے ہوئے مڈل پاس طالبعلم کو داخلہ دیا جاتا ہے (گو بعض اوقات مدارس،خصوصاً چھوٹے مدارس میں بکثرت،اس اصول کی پابندی نہیں کی جاتی) اور دو سال میں ثانیہ عامہ،اگلے دوسال میں ثانویہ خاصہ، اس سے اگلے دو سال میں ’عالیہ‘ اور آخری دو سالوں میں ’عالمیہ‘ کی سند دی جاتی ہے ۔ یہ آٹھ سالہ تعلیمی دورانیہ پاکستانی سکولوں کالجوں میں مروّج میٹرک،ایف اے،بی اے اورایم اے کے آٹھ سالہ تعلیمی دورانئے کے مساوی ہے لہٰذا ہمارے خیال میں اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں بلکہ دینی مدارس عموماً اقامتی ہوتے ہیں ، لہٰذا وہ سکولوں کالجوں کی نسبت زیادہ پڑھا سکنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ نصاب کی بحث ختم کرنے اور نظامِ تعلیم کے دوسرے شعبوں کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے مناسب محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ایسے اُمور کا ذکر کر دیا جائے جوکسی نہ کسی صورت میں نصاب سے بھی مُرتبط ہوتے ہیں ، یعنی تزکیہ وتربیت ،تحقیق اورروزگار وغیرہ ۱۔ تزکیہ وتربیت تزکیہ وتربیت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے پیغمبر کے ذمے کام گنوائے تو تعلیم کتاب کے ساتھ تزکیے کا ذکر کیا (البقرة: ۱۲۹) بلکہ تزکیے کا ذکر تعلیم کتاب سے پہلے بھی کیا او ربعد میں بھی،جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مقصود تزکیہ ہی ہے اورتعلیم بھی اس کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ [1] چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق تعلیم سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے محض تعلیم ہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ تزکیہ بھی کیا اورصحابہ کا طریقہ بھی یہی تھا کہ جتنا قرآن سیکھتے تھے، ساتھ اس پر عمل کی مشق بھی کرتے جاتے تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطأ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سورۂ بقرہ آٹھ سال میں ختم کی (خطیب بغدادی کے بقول ۱۲ سال میں ) اوراس خوشی میں اونٹ ذبح کر کے دعوتِ عام کی۔ [2] ظاہر ہے کہ حضرت عبد ا للہ کو ۸ سال محض ڈھائی پارے پڑھنے میں نہیں لگے بلکہ اس پر تدبر اورعمل میں اتنی مدت صرف ہوئی۔ بعد میں مسلم معاشرے میں جب تزکیہ وتربیت کے ایک خصوصی ادارے ’تصوف‘ نے راہ پالی تو یہ طریقہ وجود میں آیا کہ طالب علم پہلے تعلیم حاصل کرتا تھا او راس کے بعد تزکیہٴ
[1] مولانا امین احسن اصلاحی، تزکیہٴ نفس: ج ۱ ص ۱۷، طبع ملک سنز، فیصل آباد [2] امام مالک ،موطا ،کتاب القرآن ، دار احیاء التراث العربی بیروت ۱۹۵۸ء