کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 36
(الف) دینی مدارس کے طلبہ کو اُردو،عربی اور انگریزی تینوں زبانیں تعمق کے ساتھ پڑھائی جانی چاہئیں اور فارسی کا تعارفی مطالعہ بھی کروانا چاہیے۔ اردو اس لیے کہ یہ پاکستان کی قومی زبان اورعملاًہمارے ہاں بول چال اور تقریر وتحریر کی زبان ہے ۔ عربی اس لیے کہ ہماری اُمہات دینی کتب اسی زبان میں ہیں اورموجودہ عالم عرب سے ہمارے دین ودنیا کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں ۔ انگریزی اس لیے کہ یہ جدید علوم اور جدید دنیا کی کنجی ہے۔فارسی کا تعارفی مطالعہ برصغیر کی دینی اور ثقافتی تاریخ سے واقفیت کے لیے ضروری ہے ۔ (ب) زمانہٴ تدریس :اگر بچے کو ایک سے زیادہ زبانیں سکھانی ہوں تو ہماری رائے میں اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے مادری زبان اچھی طرح سکھا دی جائے تا کہ وہ اس زبان کی مہارتوں کی اساس پر دوسری زبانیں سیکھ سکے۔ہمارے ہاں یہ درجہ تقریباً اُردو کو حاصل ہے، اس لیے اردو سکھانے سے ابتدا کرنی چاہیے اورکم از کم اس سے دو سال بعد عربی کی ابتدا کرنی چاہیے(لیکن اُردو سکھانے کے لئے اگر ایسا استاد میسر نہ ہو جو اہل زبان ہو یا عربی پڑھے ہوئے ہو تواس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ حروف ِتہجی اورابتدائی قاعدہ پہلے عربی میں پڑھا دیا جائے اور پھر اُردو پڑھانی شروع کی جائے کیونکہ ہمارے ہاں تلفظ اورمخارج کے بگاڑ کا مسئلہ بڑا گھمبیر ہو چکا ہے۔ او ر اس پر ابتدا ہی سے بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے ) انگریزی چار سال کے بعد شروع کی جائے ا و رپھر متوسطہ تک ان زبانوں کی تحصیل پر خوب محنت کی جائے کیونکہ مستقبل میں دیگر علوم میں مہارت کا انحصار بھی بچے کی اِن زبانوں میں مہارت ہی پر ہوگا۔ بعد میں کم کمیت کے ساتھ زبانوں کی تدریس اَگلی جماعتوں میں جاری رہے گی۔ فارسی البتہ ثانوی میں ایک سال پڑھا کر چھوڑ دی جائے۔ (۳) ذریعہ تدریس: ابتدا میں ذریعہ تدریس اُردو ہی ہو گی، تا ہم عربی وانگریزی کی تدریس میں طریق ترجمہ وگرامر کے ساتھ طریق مباشر (عملی مشق) کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے اوراس کے نتیجے میں طلبہ جلد ہی عربی کے پیریڈ میں عربی اورانگریزی کے پیریڈ میں انگریزی پر انحصار کرنا شرع کر دیں گے۔ اس طرح اگر پہلے نو سال عربی اور انگریزی کی تحصیل پر خوب محنت کر لی جائے تو طلبہ آسانی سے ثانوی جماعتوں میں دینی علوم عربی زبان میں او ر جدید علوم انگریزی زبان میں سیکھنے پر قادر ہو جائیں گے۔ (۴) زبانوں میں مہارت کے وسائل: ہمارے نزدیک مذکورہ تینوں زبانوں میں مہارت انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور تعلیمی اداروں کو ا پنی ساری صلاحیتیں اس کے لیے وقف کر دینی چاہئیں ۔ کوشش کرنی چاہئے کہ زبانیں پڑھانے والے اساتذہ اَہل زبان ہوں ۔ اس کے لیے مختبر اللغة (لنگوئج