کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 34
بنیادی اُصول (۱)تعلیمی ثنویت کا تصور مضر ہے یعنی یہ تصور کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو دنیوی علوم کی کچھ خبر نہ ہو اور دُنیوی تعلیم حاصل کرنے والوں کو دینی تعلیم کا پتہ نہ ہو کیونکہ اس طرح مسلمان بچے کی شخصیت تقسیم ہو کر رہ جاتی ہے۔ جب کہ اسلام ایک وحدت ہے اوراس میں دین ودنیا کی کوئی تفریق نہیں ۔ (۲)دینی تعلیم کا بنیادی ہدف دینی مضامین میں رُسوخ حاصل کرنا ہے لیکن ا س کے لیے کسی خاص نصاب کو کوئی تقدس حاصل نہیں ہے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نصاب کی ترجیحات کو بدلا جا سکتا ہے اورمختلف مضامین کی کمیتWeigtageکو بدلا اور طرقِ تدریس کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ (۳)عصر حاضر کے مسائل اور تحدیات کوسمجھنے کے لیے مغربی فکر او رجدید مضامین کا مطالعہ ضروری ہے ۔ (۴)دینی تعلیم مسلک کی بنیاد پر نہیں دی جانی چاہئے ۔ اسکے نقصانات کی طرف کچھ اشارات تمہید میں آچکے ہیں کہ اس چیز نے علما میں انتشار،تعصب،فرقہ واریت اور دوسری بہت سی مصیبتوں کو جنم دیا ہے۔ (۵)تزکیہ وتربیت اور تحقیق بھی نصاب کا جز ہونی چاہیے۔ (۶)دینی تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے کسب ِرزق کامیدان وسیع ہونا چاہیے۔ … اَب آئیے تفصیلی اوراِصلاحی تجاویز کی طرف او ران میں بھی سب سے پہلے نصاب ،کہ یہ نظامِ تعلیم کا بہت اہم عنصر ہے۔ ہماری رائے میں درسِ نظامی کے موجودہ نصاب میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں ناگزیر ہیں : اولاً … دینی علوم (۱) قرآنِ حکیم پر ترکیز: قرآنِ حکیم دینی تعلیم کا مرکزی مضمون ہونا چاہیے جو شروع سے لے کر آخر تک پڑھایا جائے۔ یہ نہ صرف دیگر دینی مضامین کا عمود ہو بلکہ اس کا لفظی ترجمہ نحوی وصرفی تحلیل کے ساتھ شروع سے آخر تک پڑھایا جائے۔ تفسیر کے مختلف مکتبہ ہائے فکر میں سے منتخب اجزا تعمق کے ساتھ پڑھائے جائیں ۔ قرآنی آیات سے استنباطِ احکام کی مشق کروائی جائے۔ دیگر علو مُ القرآن جیسے شانِ نزول ،ناسخ ومنسوخ، قرآء ات اوراُصولِ تفسیر وغیرہ بھی پڑھائے جائیں ۔ (۲) مطالعہ حدیث:دورۂ حدیث کے موجودہ طریقے کو ترک کر دیا جائے جس میں انتہائی کم مدت میں بہت سی کتب ِحدیث سے طالب علم کو گزار دیا جاتا ہے او رجو تھوڑی بہت تدریس ہوتی ہے وہ بھی محض فقہی مسلک کے نقطہ نظر سے۔ اس کی بجائے مطالعہ حدیث کو سارے تعلیمی عرصے پر پھیلایا جائے… منتخب