کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 33
کے فقہی مسائل کے بیان کرنے پر ہوتا ہے ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس میں علما کی اپنی تربیت بھی اسی نہج پر ہوتی ہے ۔ (ب) جدید تعلیم جوپاکستان میں مروّج ہے، اُس میں دینی تعلیم و تربیت کا حصہ برائے نام ہے۔ علما نے اِس خلا کو پر کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش آ ج تک نہیں کی، حالانکہ یہ ایک انتہائی بنیادی بات ہے اوراس کے لیے مربوط اور منظم کوششیں کی جانی چاہئیں تھیں ۔ (ج) طبقہ اُناث اس سلسلے میں خاص طور پر مظلوم ہے کہ نہ اُن کے لیے مساجد میں نماز پڑھنے کا کوئی انتظام ہے، نہ خطبہ سننے کا او ر نہ اُن کی دینی تعلیم کی کوئی صورت ہے؟ ۸۔اِن دینی مدارس کے انتظامی پہلوؤں پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ ہر مسلک کا اپنا وفاق ہے جو اپنے مسلک کے نقطہ نظر سے کتابیں پڑھاتا ہے ۔ طلبہ کے داخلہ کے وقت عمر اورصلاحیت کی کوئی پابندی نہیں کی جاتی۔ اساتذہ کی اہلیت او رتنخواہوں کا کوئی معیار مقرر نہیں ۔اساتذہ کی فنی تربیت کا بھی کوئی اہتمام نہیں ،نیز اِن مدارس سے فارغ ہونے والوں کے لیے سوائے اپنے مسلک کی مساجد ومدارس میں تعیناتی کے، کوئی ذریعہ رزق نہیں او رجتنے طلبہ فارغ ہوتے ہیں ،ظاہر ہے اتنی مساجد اور مدارس موجود نہیں کہ سب لوگ کھپ سکیں ۔ لہٰذا مساجد پر قبضے کے جھگڑے بھی سامنے آتے ہیں او راِسی طرح کے دوسرے مسائل بھی۔ ہماری رائے میں پہلا نقطہ نظر بھی صحیح تھا اور اس دوسرے نقطہ نظر میں بہت سی باتیں یقینا قابل غور ہیں …مطلب یہ کہ دینی مدارس کی کچھ خدمات بھی ہیں جن سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تا ہم ان میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں جنہیں تسلیم کرناچاہیے اور ان کی اِصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ اگر علما اِصرار کریں کہ ان کے دینی نظام تعلیم میں کوئی خرابی نہیں ۔ ان کے ہاں سب اچھا ہے اور کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں تو ہمارے خیال میں یہ بھی انصاف نہیں ۔ اپنی کمزوریوں کو کھلے دِل ودماغ سے تسلیم کرنا اوران کے اِزالے کی کوشش کرنا یہی زندہ اور شجاع اَفراد واَقوام کا چلن ہوتا ہے ۔اسی سے اداروں میں اصلاح وترقی ہوتی ہے اورمستقبل میں اچھے نتائج نکلتے ہیں ۔ لہٰذا آیئے ،غور کرتے ہیں کہ پاکستان میں مروّج دینی نظامِ تعلیم میں کیسے اصلاح کی جائے کہ اِس کے طے کردہ اہداف اَحسن انداز میں حاصل ہو سکیں ۔ لیکن تفصیلات میں جانے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اُصولوں کا ذکر کردیا جائے جن پر ہماری اصلاحی تجاویز مبنی ہوں گی جو یہ ہیں :