کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 30
بھی وہ خام ہوں گے جس کی وجہ سے وہ دینی اورعلمی حلقوں میں درخورِ اعتنا نہیں سمجھے جائیں گے اوردنیاوی تعلیم میں بھی وہ اُدھورے اور ناقص ہوں گے، اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی انکی کھپت مشکوک رہے گی۔ وہ آدھے تیتر، آدھے بٹیریا … نیم حکیم خطرۂ جان اور نیم ملا خطرۂ ایمان … ہی کا مصداق ہوں گے۔ ٭ ایک چوتھا گروہ ہے، جو نصاب میں صرف اس حدتک تبدیلی کا خواہاں ہے کہ منطق وفلسفے کی کتابوں کی بجائے عصر حاضر کے فتنوں ، تحریکوں اوراِزموں کو سمجھنے کے لیے بعض ضروری جدید علوم کی تدریس کا انتظام کیا جائے۔ اس تبدیلی سے یقینا علماءِ کرام کے کردار کو زیادہ موٴثر اورمفید بنایا جاسکتا ہے۔ جس کے علما اور اصحابِ مدارس قطعاً مخالف نہیں ہیں ۔ بلکہ حسب ِاستطاعت بعض بڑے مدارس میں ان کا اہتمام بھی ہے۔ اور اس میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے، جیسے انگریزی زبان کی تدریس، معاشیات کی تعلیم وغیرہ۔ کیونکہ اس تبدیلی اور اہتمام سے مدارسِ دینیہ کا اصل نصاب متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تکمیل ہوتی ہے اور ا س سے دین اسلام کی برتری کا وہ مقصد حاصل ہوتا ہے جو مدارسِ دینیہ کا اصل مقصد ہے۔ اس تجویز کو ایک دوسرے انداز سے بھی بروئے کار لا یا جاسکتا ہے کہ مدارسِ دینیہ کے نصاب میں قدرے تخفیف کر کے اس کی مدتِ تکمیل چھ سال کر دی جائے اور اس کے بعد دو یا تین سال ان فارغ التحصیل طلبا کو جدیدتعلیم اورجدید نظریات سے آگاہ کیا جائے۔ ایک تعلیمی اصلاح یہ بھی ضروری ہے کہ جدل ومباحثہ پر مبنی کتابوں اور فقہیات کے حصوں میں کمی کر کے قر آ ن وحدیث کے مضامین اور علوم کو زیادہ اہمیت اور زیادہ وقت دیا جائے اور ممکن ہو تو فقہی مقارنہ کا انتظام کیا جائے تاکہ طلبا میں فقہی جمود اور تنگی کی بجائے وسعت ِنظر بھی پید اہو اور وسعت ِظرف بھی جس کی آج کل بڑی شدید ضرورت ہے۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے قیام کا اصل مقصد دینی علوم کی تدریس ہے تا کہ اس کے ذریعے سے دینی اقدار وروایات کا تحفظ کیا جائے۔ یہ کام اور کوئی ادارہ نہیں کر رہا ہے، بلکہ دین کو ملیا ملیٹ کرنے کی مذموم مساعی زور شور سے جاری ہیں ۔ اس لیے مدارسِ دینیہ کے تعلیمی نصاب میں اس انداز کی اصلاح کا کوئی جواز نہیں ہے جو اس کے اصل مقصد ِوجود کے منافی ہو۔ تا ہم ایسی اصلاحات ضروری ہیں جن سے علماءِ کرام کے کردار کو زیاد ہ موٴثر بنایا جا سکے اوردعوت وتبلیغ میں عصری تقاضوں اوراسالیب کو ملحوظ رکھا جا سکے۔ وَما عَلينَا إلاّ البَلاغ المُبين