کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 3
اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک جنرل مشرف صاحب خاصے محتاط رہے۔ اتاترک کے متعلق ان کے دل میں احترام تو باقی رہا مگر اس کا اظہار کرنے سے انہوں نے گریز ہی کیا۔ حتیٰ کہ ۱۱/جون ۲۰۰۰ء کو نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے جب یہ بیان دیا کہ ”پاکستان کو ترقی پسند، جدید، متحمل اور سیکولر سٹیٹ ہونا چاہئے۔“ اور دینی جماعتوں کی طرف سے اس کے خلاف سخت ردّعمل کا اظہار کیا گیا تو جنرل مشرف صاحب نے بیان دیا کہ پاکستان کامستقبل سیکولرازم سے نہیں ، اسلام سے وابستہ ہے۔ اس دوران وہ تواتر سے جہاد اور دہشت گردی کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے رہے، انہوں نے قومی اور بین الاقوامی فورم پر بھی کئی مرتبہ دینی مدارس کے مثبت فلاحی کردار پر روشنی ڈالی۔ قانونِ توہین رسالت کی دفعہ 295-C میں مجوزہ ترمیم واپس لے کر انہوں نے اسلام پسندوں کو بہت حد تک مطمئن کیا۔ انہوں نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود طالبان کی حمایت بھی جاری رکھی۔ ان سب اقدامات کے باوجود مشرف حکومت میں این جی اوز کو غیر معمولی اثرورسوخ، حکومتی ذمہ داران کی طرف سے دینی مدارس کو کنٹرول کرنے کے بیانات اور ’ترقی پسندانہ اسلام‘کی والہانہ تکرار نے ہمیشہ شکوک و شبہات کوجنم دیا۔ ۱۱/ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد امریکہ سے تعاون کی پالیسی نے موجودہ حکومت اور دینی جماعتوں کے درمیان براہِ راست تصادم کے حالات پیدا کردیے۔ طالبان اور القاعدہ کے حوالے سے جہادی تنظیموں پر پابندی لگانے کے لئے روز بروز امریکہ کی طرف سے دباؤ بڑھتا گیا تو حکومت کی پالیسی بھی بتدریج تبدیل ہوتی گئی۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے بارے میں محسوس کیا گیا ہے کہ وہ موقع محل دیکھ کر بات کرتے ہیں ۔ بعض اوقات دو مختلف مواقع پراس قدر مختلف اُسلوب اپناتے ہیں کہ سننے والا سخت الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ان کی دل کی بات کون سی ہے؟ وہ علما اور مشائخ کوخصوصی ملاقاتوں کا شرف بخشتے ہیں تو اسلام، علمائے دین اور دینی مدارس کااس حسن اسلوب سے ذکر کرتے ہیں کہ سننے والے علما ہی بعض اوقات شرمندہ ہوجاتے ہیں کہ خواہ مخواہ وہ جنرل صاحب کے متعلق سوئے ظن میں مبتلا رہے ہیں ۔ وہ علما جونجی مجالس میں جنرل مشرف صاحب کے سیکولر، دین مخالف اور مذہب بیزار ہونے کی شکایات کرتے نہیں تھکتے، ان کے روبرو اسلام اور علما کے متعلق ان کے سخن ہائے دل پذیر سنتے ہیں تو دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں کہ وہ سنی سنائی باتوں پران کے خلاف بغض اور کینہ پالتے رہے۔ جنرل صاحب کو خدا نے اپنی بات بیان کرنے اور اپنا دفاع کرنے کا ایسا ملکہ عطا کیا ہے کہ کمزور استدلال رکھنے والے ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔وہ اپنی گفتگو میں علما کو دینی مدارس اور دین وشریعت کی پاسداری کی اس طریق پر یقین دہانیاں کراتے ہیں کہ بہت کم علما ہوں گے جو ان یقین دہانیوں کا اعتبار نہ کرتے ہوں ۔ طالبان کی شدت سے حمایت کرنے والے علما کو بھی دیکھا ہے کہ ان کے حضور پہنچتے ہیں تو بدلے بدلے ہوتے ہیں ۔ مگر یہ ان کی شاہانہ طبیعت کا ایک پہلو ہے، جسے