کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 29
دنیوی تعلیم کے اداروں سے پیدا ہو رہے ہیں ۔ جب کہ دینی مدارس کے قیام اور ان کے الگ وجود کا مقصد شریعت کے ماہرین اور صرف دین اور دینی ضروریات کے لئے کام کرنے والے رجالِ کار پیدا کرنا ہے۔ اس اعتبار سے ان مدارس کی حیثیت تخصیصی شعبوں کی طرح ہے۔ جیسے میڈیکل کا، انجینئرنگ کا، معاشیات کا اور دیگرکسی علم کا شعبہ ہے۔ ان میں سے ہرشعبے میں صرف اسی شعبے سے تعلق رکھنے والی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے، دیگر علوم کی تعلیم کی نہ صرف ضرورت سمجھی نہیں جاتی، بلکہ اسے اصل تعلیم کے لیے سخت نقصان دِہ سمجھا جاتا ہے۔
البتہ اس قسم کا نصاب ایک ایسی اسلامی مملکت میں ہو سکتا ہے جو اسلام کے ساتھ مخلص ہو اور اسلامی تعلیمات ونظریات کا خصوصی اہتمام… نرسری سے لے کر ایم اے تک … ہو اور اپنے عوام کی اسلامی تعلیم وتربیت کے جذبے سے سرشار ہو۔ وہاں دینی مدارس کے الگ مستقل اور متوازی وجود کی شاید ضرورت نہ رہے۔ صرف یونیورسٹیوں میں علومِ شرعیہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے دیگرشعبہ ہائے زندگی سے متعلق علوم وفنون میں تخصص کی طرح، درجہ تخصص رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، یہ مدارسِ دینیہ ہی دینی علوم کے واحد مراکز بھی ہیں اوران میں درجہ تخصص حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔
٭ تعلیمی اصلاح کی ایک تیسری صورت یہ بھی پیش کی جاتی ہے، بلکہ بہت سی جگہوں پر ا س پر عمل بھی ہو رہا ہے، اور وہ یہ کہ جدید اور قدیم دونوں تعلیم کا ملغوبہ تیار کیا جائے۔ تا کہ ایسے افراد تیار ہوں جن میں قدیم وجدید کا امتزاج اور دونوں علوم میں ان کو مہارت ہو۔ یہ تصور یقینا بڑ اخوش کن اورمسرت آگیں ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ تجربہ کئی جگہ کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی مبینہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں قسم کے علوم اپنی اپنی جگہ شدید محنت اور توجہ کے متقاضی ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عربی مدارس میں طلبا رات دِن محنت کرتے ہیں اور آٹھ سال اس پر صرف کرتے ہیں ، اس کے باوجود ہزاروں میں سے چند طالب علم ہی صحیح معنوں میں علمی استعداد سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور دعوت وتبلیغ یا تعلیم وتدریس یا تصنیف وتالیف اور افتاء وتحقیق کے میدان میں کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔یہی صورت حال دنیوی تعلیم کے شعبوں کی ہے۔ دنیوی تعلیم کے اداروں میں بھی طلبا محنت کرتے ہیں ، بلکہ ٹیوشنوں پر بھی ایک معتد بہ رقم خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن نتائج چالیس فی صد سے بھی کم حاصل ہوتے ہیں ، جب الگ الگ مستقل طور پر تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ یہ ہے، تو جب بیک وقت دونوں علوم طالب علموں کو پڑھائے جائیں گے تو ان کے پلے کیا پڑے گا؟
اس طرح کے اداروں سے فارغ ہونے والے نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ علومِ شریعت میں