کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 28
افراد دیگر معاشرتی خدمات سر انجام دیتے ہیں ، درزی کپڑے سیتا ہے،حکیم اورڈاکٹر علاج معالجہ کرتا ہے، ایک شخص ’سیل مینی ‘ کرتا ہے، یہ سب اپنی اپنی محنت وخدمت اور قابلیت کا معاوضہ لیتے ہیں ۔ علماء بھی دینی خدمات سر انجام دے کر معاشرے سے معاوضہ وصول کر لیتے ہیں ، تو اسے دست نگری کیوں سمجھا جائے ؟ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو کیا اس میں کوئی معقولیت ہے ؟ اورجہاں تک قلیل آمدنی کی بات ہے تو یہ اگر چہ بہت حدتک صحیح ہے لیکن علما کے نزدیک اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اُن کو اَپنا معیارِ زندگی سادہ ہی رکھنا چاہئے تا کہ وہ معاشرے میں ایک نمونہ بن کر رہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اہل دین کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی کر کے علما کی قدر افزائی کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے تاکہ علما کی حوصلہ افزائی ہو نہ کہ ان کی حوصلہ شکنی۔ ان کا موجودہ رویہ حوصلہ شکنی پر مبنی ہے جس سے علما اور علومِ دین کی ناقدری ہو رہی ہے اوریوں معاشرے میں دین کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔ مساجد ومدارس کا انتظام کرنے والے،بے دین لوگ تو نہیں ہوتے۔ اہل ایمان اور دین سے محبت رکھنے والے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ مساجد ومدارس کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے لوگوں سے وصول کرتے اور خرچ کرتے ہیں ، ان کا سالانہ بجٹ لاکھوں اورکروڑوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر یہ اربابِ اہتمام خطابت وامامت سے یا تعلیم وتدریس سے وابستہ علما کی تنخواہوں میں بھی معقول اضافہ کر دیں ، تو یقینا جہاں ان کے دیگر اخراجات کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوجاتا ہے،تنخواہوں کی مدمیں ہونے والے تھوڑے سے اضافے کا بندوست بھی اللہ تعالیٰ فرما سکتا ہے … یہ صحیح طریقہ تو اختیار کرنے سے گریز کیا جائے اور انہیں کسب ِمعاش کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرنے کی تلقین کی جائے، جو نہایت خطرناک راستہ ہے جس سے دین کا کام سخت متاثرہونے کا اندیشہ ہے۔ ٭ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کا نصاب معمولی سے فرق یا اضافے کے ساتھ سکول، کالج اور یونیورسٹی والا کر دیا جائے۔ ان کی ڈگریاں بھی میٹرک، ایف اے،بی اے اورایم اے کے برابر ہوں اوران کے ڈگری یافتہ اصحاب سرکاری اداروں میں ملازمتیں کر سکیں ۔ اس تجویز کے پیش کرنے والے کون ہیں ؟ ا ور اس سے ان کااصل مقصد کیا ہے ؟ کیا واقعی اس میں اخلاصِ نیت اورہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے یا نہیں ؟ اس سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ اس تجویز پر عمل کرنے سے علما کے دینی کردار کا خاتمہ اوردینی مدارس کے مقصد ِوجود کی نفی ہو جائے گی۔ اس سے دینی مدارس سے امام وخطیب، مصنف ومدرّس اوردین کے داعی ومبلغ بننے بند ہو جائیں گے جو ا ن کااصل مقصدہے اور یہاں سے بھی کلرک، بابو اور زندگی کے دیگر شعبوں میں کھپ جانے والے افراد ہی پیدا ہوں گے، جیسے