کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 27
رہنمائی کی فریضہ انجام دینا ہے اورمدارسِ دینیہ سے یہ مقاصد حاصل ہور ہے ہیں ، تقریباً دو سو سال سے یہ مدارس انہی مقاصد کے لیے قائم ہیں ، اورتمام تر مشکلات اور نہایت بے سروسامانی کے باوجود اپنے مقصد ِوجود کو پورا کر رہے ہیں تو پھر ان کی تعلیمی اصلاح کی ضرورت واہمیت پر کیوں اتنا زور دیا جاتا ہے؟ اگر کسی ڈاکٹر سے یہ مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر ی کے ساتھ ساتھ وکالت یا انجینئرنگ کی تعلیم بھی ضرور حاصل کرے، کسی وکیل سے یہ کہنا مناسب نہیں کہ وہ ڈاکٹری یا سائنس کاعلم بھی ضرور حاصل کرے، اسی طرح بھی ایک فن کے ماہر کے لیے ضرور ی نہیں کہ وہ دوسرے فنون میں بھی ماہر ہو تو پھر علمائے دین ہی کے لیے یہ کیوں ضروری ہوکہ وہ دینی علو م میں تخصّص کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی تخصص حاصل کریں ؟ اس لیے راقم کے خیال میں دینی مدارس کے تعلیمی نصاب میں اِصلاح کے مطالبے میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ مطالبہ بڑی شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے، تو آخر اس کی کیا و جہ ہے ؟ جہاں تک راقم نے اس پر غور کیا ہے تو اس کے چند اسباب سمجھ میں آتے ہیں : ٭ یہ مطالبہ کرنے والے مختلف لوگ ہیں اوراس سے ان کے اغراض ومقاصد بھی مختلف ہیں ۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو علما کے ساتھ ہمدردی اوراخلاص کا تعلق رکھتے ہیں ۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ علما کی معاشرے میں وہ قدرو منزلت نہیں ہے جو اُن کی ہونی چاہیے یا اُن کی آمدنیاں اُن کی معاشی ضروریات اورتمدنی سہولیات کی متکفل نہیں ہیں ، تو وہ چاہتے ہیں کہ علما دینی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ، کسب ِمعاش کے لیے کچھ اورہنر سیکھ لیں تا کہ وہ معاشرے کے دست ِنگر نہ رہیں یا عسرت وتنگ دستی کا شکار نہ ہوں ۔ اس لیے ان کی تجویز ہوتی ہے کہ مدارسِ میں دست کاریوں کے سکھانے کا اہتمام بھی ہو۔ اس تجویز میں کار فرما جذبہ، اگرچہ اخلاص وہمدردی ہی ہے، لیکن اس پر عمل کرنے کا نقصان یہ ہو گا کہ اس طرح علما کی اکثریت اپنے مقصد سے غافل ہو جائے گی۔ علما کے لیے یہی مناسب اور ان کے شایانِ شان ہو گا کہ اللہ نے انہیں قرآن وحدیث کے فہم سے نوازا ہے، تووہ اپنی زندگی قرآن وحدیث کی نشرواشاعت اوراس کی تعلیم وتدریس میں ہی گزاریں ۔ ان کا اصل سرمایہ،اعتماد وتوکل علی اللہ ہے، ان کی نظر یں مادّی سہولتوں کی بجائے اُخروی اَجروثواب پر ہونی چاہئیں ۔ رہی دست نگر ی کی بات، تو یہ بھی خلافِ واقعہ ہے۔ آخر علما شب و روز اپنے آپ کو دینی خدمت کے لیے وقف رکھتے ہیں ، معاشرہ اِس کے عوض ان کی معاشی کفالت کا بندوبست کرتا ہے، تو اس میں دسست نگری والی بات کیا ہے؟یہ تو محنت ا ور خدمت کا معاوضہ اور صلہ ہے۔ جس طرح معاشرے کے اَور