کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 25
اس دور میں متحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں دینی مدارس کاجال پھیلادیا۔ انگریزوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے جس انگریزی نظامِ تعلیم کو نافذ کیا تھا، اس کے دو بڑے مقصد تھے: ایک، دفتروں کے لیے کلرک اوربابو پیدا کرنا … دوسرا، مسلمان کو اس کے دین اور اس کے شعائر واقدار سے بیگانہ کردینا۔ بد قسمتی سے دورِ غلامی کایہ مخصوص نظامِ تعلیم اپنے مخصوص مقاصد سمیت تاحال قائم ہے، اس لئے دینی مدارس کی ضرورت بھی محتاجِ وضاحت نہیں ۔ بنا بریں علما جب سے اب تک ان مدارس کے ذریعے سے دین کی نشرو اشاعت اوردینی اقدار وشعائر کی حفاظت کا فریضہ نامساعدت ِ احوال اور انتہائی بے سروسامانی کے باوجود سر انجام دے رہے ہیں ۔ یہ انہی مدا رس کا فیض ہے کہ ملک میں اللہ رسول کا چرچا ہے، حق وباطل کا امتیاز قائم ہے، دینی اقدار وشعائر کا احترام وتصور عوام میں موجود ہے اور عوام اسلام کے نام پر مرمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ دینی مدارس کے اس پس منظر،غرض وغایت اور خدمات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے قیام کا مقصد ڈاکٹر، وکیل، انجینئر،صنعت کار اورکلرک وبابو پید ا کرنا نہیں ، بلکہ علومِ دینیہ کے خادم، دین اسلام کے مبلغ وداعی، قرآن کے مفسر، احادیث کے شارح اور دین متین کے علم بردار تیار کرنا ہے۔ ان کانصابِ تعلیم اسی انداز کا ہے جن کو پڑھ کر وارثانِ منبر ومحراب ہی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ایسے ہی رجالِ کا ر پیدا کرنا ہے نہ کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کھپ جانے والے افراد۔ اس لیے بنیادی طور پر ان کے نصابِ تعلیم میں تبدیلی یا ان کی آزادانہ حیثیت میں تغیر،دونوں چیز یں ان کے مقصد ِوجود کی نفی کے مترادف ہیں ۔ نصابِ تعلیم میں بنیادی تبدیلی سے دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبا نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ اگر کسی محدود سے مفاد کے ساتھ وہ دنیوی شعبے میں کھپنے کے لائق ہو بھی گئے تو بہر حال یہ تو واضح ہے کہ دینی علوم اور مذہبی تبلیغ سے ان کا رابطہ ختم ہو جائے گا یا اگر رہے گا بھی تو اُس انداز کا نہیں رہے گا جو اسلامی علوم کی نشرواشاعت اور اس کی تبلیغ کے لیے مطلوب ہے۔ اس طرح ان مدارس سے دین کے وہ خدام تیار ہونے بند ہو جائیں گے جن کے ذریعے سے قال اللّٰه وقال الرسول کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ، ائمہ و خطبا، حفاظ وقرا اورمدرّسین وموٴلفین پیدا ہو رہے ہیں جن سے مختلف دینی شعبوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں ۔ اگر نصابِ تعلیم کی تبدیلی سے یہی نتیجہ نکلا اوریقینا یہی نکلے گا تو ظاہر بات ہے کہ مدارسِ دینیہ کی مخصوص حیثیت ختم ہو جائے گی اور وہ بھی عام دنیوی اداروں (سکول، کالج، یونیورسٹی وغیرہ) کی طرح ہو