کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 21
تعلیم وتعلّم حافظ صلاح الدین یوسف مدارسِ دینیہ کے مقصد ِقیام کی روشنی میں تعلیمی اصلاح کیوں اور کیسے ؟ سوویت یونین کے بکھر جانے اوررُوس کے بحیثیت ِسپر طاقت زوال کے بعد،امریکہ واحد سپر طاقت رہ گیا ہے۔ جس سے اس کی رُعونت میں اضافہ اور پوری دنیا کو اپنی ماتحتی میں کرنے کا جذبہ توانا، بالخصوص عالم اسلام میں اپنے اثر و نفوذ اوراپنی تہذیب وتمدن کے پھیلانے میں خوب سر گرم ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) اس کے اِسی جذبے کا مظہر اور عکاس ہے۔ امریکہ کے دانشور جانتے اورسمجھتے ہیں کہ ان کی حیا باختہ تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب، اپنے حیاء وعفت کے پاکیزہ تصورات کے اعتبار سے بدر جہا بہتر اور فائق ہے۔ اس لیے یہ اسلامی تہذیب ہی اس کے نئے عالمی نظام اوراس کی عالمی چودھراہٹ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، اسے ختم یا کمزور کئے بغیر وہ اپنا مقصد اور عالمی قیادت حاصل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس نے اسلامی تہذیب وتمدن کو ختم کرنے کے لئے اپنی سرگرمیاں تیز ترکردی ہیں ۔ یہ مذموم کوششیں ، ویسے تو ایک عرصے سے جاری ہیں ، اور مختلف جہتوں اور محاذوں سے یہ کام ہو رہا ہے۔ بعض محاذوں پر اس کی پیش قدمی نہایت کامیابی سے جاری ہے مثلاً حقوقِ نسواں کے عنوان سے، مسلمان عورتوں میں اپنے مذہب سے نفرت وبیگانگی اور بے حیائی وبے پردگی کی اشاعت، جس میں وہ بہت کامیاب ہے۔ چنانچہ سعودی معاشرے کے علاوہ بیشتر اسلامی ملکوں کی مسلمان عورتوں کو اس نے اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس پردے کی پابندی سے آزاد اور حیاء وعفت کے اسلامی تصورات سے بے نیاز کر دیا ہے … مخلوط تعلیم، مخلوط سروس اور مخلوط معاشرت کا فتنہ اور مساوات ِ مرد وزن کا مغربی نظریہ ہے، جو ہر اسلامی ملک میں اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ گویا اس محاذ پر بھی مغرب کی سازشیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں ۔ نرسری سے لے کر کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح تک،نصابِ تعلیم میں لارڈ میکالے کی وہ روح کارفرما ہے جو اس انگریزی نظامِ تعلیم کا موجد تھا اورجس نے کہا تھا کہ ”اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اوررنگ کے اعتبار سے ہندوستانی، مگر خیالات اور تمدن میں