کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 2
کتاب: محدث لاہور 257 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر جنرل پرویز مشرف کے دو چہرے...... سیکولرزم یا اسلام ؟ جنرل پرویز مشرف صاحب کا اصل زاویہٴ نگاہ اور فکری میلان (Mindset)کیا ہے؟ کیا وہ ایک سیکولر راہنما ہیں یا اسلام پسند؟ کیا انہیں جدید ترکی کے معمار مصطفی کمال (اتاترک) کی طرح کا ’لبرل‘ سمجھا جائے یا اسلام کی لبرل تعبیر پریقین رکھنے والامسلمان کہا جائے؟ کیا وہ ترقی پسندانہ اسلام کانام لے کر پاکستان میں سیکولر زم کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں یا پاکستان سے انتہا پسندانہ فرقہ واریت کاخاتمہ کرکے پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک روادار اسلامی معاشرے کی صورت دینا چاہتے ہیں ؟ وہ جدیداصطلاح میں راسخ العقیدہ یا ’بنیاد پرست‘ کہلواناپسند نہیں کرتے، وہ اپنے آپ کوترقی پسند، لبرل، اور روشن خیال مسلمان کہلواناپسند فرماتے ہیں ۔ اگر وہ لبرل ہیں تو کن معنوں میں ؟… اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جو ان کی شخصیت کے متعلق مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں گھوم رہے ہیں ۔ ”کمال اتاترک میرے ہیرو ہیں !“… جنرل پرویز مشرف نے ہنگامی طورپر اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد جب ایک تقریر میں بے ساختگی سے یہ جملہ ادا کیا تو انہیں پاکستانی معاشرے کی نظریاتی اساس کے تناظر میں اس مختصر سے جملے کی حقیقی معنویت کا شاید احساس نہیں تھا۔ انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ مصطفی کمال پاشا کا اہل پاکستان کے دلوں میں وہ احترام و مرتبہ نہیں ہے جس کا مشاہدہ انہوں نے ترکی میں طویل قیام کے دوران کیاتھا۔ اپنے اقتدار کے شروع ہی میں وہ اپنی شخصیت کو متنازعہ فیہ نہیں بنانا چاہتے تھے، لہٰذا انہوں نے جلد ہی وضاحت کردی: ”کمال اتاترک یقینا ترکوں کے ہیرو ہیں جو جدید ترکی کے معمار ہیں اور جنہوں نے بیمار یورپ میں سے ترکی کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر نکالا، تاہم ہمارے راہنما اور باباے قوم قائد ِاعظم ہیں جن کے اُصولوں پر کاربند رہنے کے ہم پابند ہیں ۔ میں اتاترک کا بے حد احترام کرتا ہوں لیکن ہمارے ملک کا اُصول ترکی سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔“ (نوائے وقت: ۱۴/نومبر ۱۹۹۹ء) جنرل مشرف صاحب نے وضاحت تو کردی مگر شعوری یا لاشعوری طور پر جو بات ان کی زبان سے نکل گئی تھی، وہ دنیاے اسلام کے دین پسندوں کے دل میں کانٹا بن کر کھب گئی۔ ان کی جانب سے جنرل مشرف کی سوچ کے بارے میں متواتر ذہنی تحفظات کا سلسلہ جاری رہا، بالآخر ایک موقع پر جنرل صاحب کو صاف لفظوں میں کہنا پڑا کہ ”میں پکا مسلمان ہوں اور پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے!“