کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 19
روابط سے منع نہیں کرتا ،بشرطیکہ ہم ان کی اخلاق باختہ تہذیب میں رنگے جانے سے محفوظ رہ سکیں ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عرب دنیا سے ہمارا رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ ہماری قومی یونیورسٹیوں کا ایم اے (اسلامیات )اور ایم اے (عربی ) نوجوان وہاں ایف اے کے برابر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا اس لئے کہ ہمارا ایم اے (عربی) عربی بولنااور سمجھنا تودرکنار صحیح طریقے سے عربی عبارت پڑھ بھی نہیں سکتا ۔اسی طرح ایم اے (اسلامیات )قرآنِ مجید بھی صحیح طریقے سے نہیں پڑھ سکتا۔ غالبا ً مغرب کی بالادستی سے ہماری ذہنی مرعوبیت نے اسلامی دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ہماری ڈگری کو بے وقار کر رکھا ہے ۔ اگرچہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کالجز اور یونیورسٹیاں سیاست کے اِکھاڑے بن چکے ہیں اور اسی سیاست کے حوالہ سے قتل و غارت ہوتی ہے ۔اس صورتحال نے تعلیمی یکسوئی کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں کو سیاست کے اکھاڑے بنانے کی بجائے خالص تعلیمی اور تحقیقی دانشگاہوں میں تبدیل کیا جائے ۔ اسی بنا پر تعلیم کا ضابطہ اخلاق یہ ہے کہ عام یونیورسٹیاں ہمیشہ سیمی گورنمنٹ ہوتی ہیں ، کبھی پوری طرح سرکاری تحویل میں نہیں ہوتیں ۔ سوال: یہ جو دینی مدارس کو دہشت گردی سے منسلک کیا جارہا ہے اورانہیں فرقہ وارانہ کشمکش کا منبع سمجھا جاتا ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟ مولانا مدنی: یہ درحقیقت اسلام دشمن یہودی لابی کے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے اور وہ سیکولر طبقہ جو یہ پروپیگنڈہ کررہا ہے، وہ درحقیقت پاکستان میں دینی مدارس کی تباہی پر مبنی امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے راہ ہموار کررہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام دینی مدارس کا بنیادی تصور تفقہ فی الدین ہے۔ قرآن مجید میں ’قتال‘ کی آیات کے درمیان میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو دین کی سمجھ حاصل کرے اور یہ دینی مدارس اسی آیت کا عملی نمونہ ہیں ،جن کا مقصد صرف تفقہ فی الدین ہے۔ البتہ برصغیر پاک و ہند میں برطانوی استعمار نے دینی مدارس کو گوشوں میں محبوس کر کے اورنئی نبوت ایجاد کر کے ان میں مذہبی تعصبات کی پرورش کی ، جس کے نتیجے میں مسائل میں اصول وفروع کی تمیز کئے بغیر مناظروں کے ذریعے عوام کو بھی الجھانے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں ۔ تاہم ہمارے روایتی نظامِ تعلیم کو دہشت گردی سے منسلک کرنا سراسر یہودی لابی کا پروپیگنڈہ اور سیکولر/بے دین طبقہ کی کارستانی ہے، کیونکہ یہ چیز اسلامی تعلیم کے بنیادی تصور کے ہی خلاف ہے!! جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ دینی مدارس کے نصاب کو فرقہ وارانہ کشمکش میں اضافہ کا باعث قرار دینا بھی درحقیقت تعصب، جہالت یا غلط فہمی کا نتیجہ ہے، کیونکہ درسِ نظامی کا نصاب شیعہ ،سنی دونوں طبقوں کے باہم اشتراک سے رواج پذیر ہوا تھا ۔ ان متعصبانہ خیالات کے حاملین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ درسِ