کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 17
یورپ کی وہ گماشتہ این جی اوز (Non-Government Organizations )جو اسلام دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں ، ان کا آڈٹ کیوں نہیں کیا جاتا؟ مشنری اداروں کو کیوں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے؟اور گورنمنٹ سکولوں ،کالجوں کو پرائیویٹائز کرکے کیوں مشنریوں کی تحویل میں دیا جارہا ہے؟ جب صورت حال یہ ہے تو پھر کیا دینی مدارس کو اپنے کنٹرول میں کرنے کا اقدام صریح ظلم نہیں ہوگا؟ جب باپ اپنے ایک بیٹے پر سختی روا رکھتا ہے اور ایک بیٹے کو ہرقسم کی آزادی دیتا ہے تو باپ کا یہ جرم دوسرے بیٹے کو بدظن کرنے اور ذہنی تحفظات کا شکار کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔لہٰذا ہم حکومت سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ بے جا مداخلت سے باز رہے گی اور فی الحال مداخلت کو صرف گرانٹ کی حد تک محدود رکھے گی۔ اگر اس تعاون کے پس پردہ حکومت کا مقصد مدارس کی حریت ِفکر پر قدغن لگانا اور سیکولر فکر کو فروغ دینا نہ ہوا تو مدارس کا اعتماد آہستہ آہستہ بحال ہو گا۔ سوال: جب آپ Aid لیں گے تو یقینا حکومت کے بتائے ہوئے کورس بھی پڑھائیں گے تو پھر آپ کا یہ مطالبہ بھی ہوگا کہ اب دینی مدارس کے فاضلین اور گورنمنٹ اداروں کے تعلیم یافتہ حضرات کے درمیان ملازمتوں کے سلسلہ میں امتیازی رویہ بھی ختم ہونا چاہئے کہ ایک آدمی میٹرک کے بعد درسِ نظامی میں آٹھ سال لگاتا ہے ،اس کے لئے کلرک کی ملازمت بھی مشکل جبکہ جو صرف ایف اے ،بی اے کرتاہے، اسے کسی بھی ملازمت کا اہل سمجھا جاتا ہے؟ مولانا مدنی: نظامِ تعلیم میں ثنویت کی بجائے وحدت ہونی چاہئے اور مسٹر اور ملا کے درمیان جو تفریق پیدا کردی گئی ہے، اسے ختم ہونا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظامِ تعلیم کے بنیادی ڈھانچہ کو اسلامی نظریہٴ حیات پر استوار کرکے طلبہ پرجاری کیا جائے۔ سیکولر ممالک اور حلقوں کی طرف سے پڑنے والی لادین گردوغبار اور آلودگی سے اسے پاک کیا جائے تاکہ ہم اس تعلیمی تسلسل سے مربوط ہوسکیں جو اسلام کی تاریخ کی چودہ سو سالہ یادگار ہے۔ لیکن رکاوٹ یہ ہے کہ ہم لوگ جو مغربی تہذیب و تمدن سے مرعوب ہیں ، ہمیشہ مغرب کے دماغ سے سوچتے اور مغرب کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ اس تہذیب کی نظر سے نہیں دیکھتے جس کا حصہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ ، ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ اوران کے اخلاف رہے ہیں ۔ سوال: علم وتحقیق کے حوالہ سے قدیم وجدید کی بحث پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیں تاکہ ماضی وحال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی سوچ متعین ہو سکے ۔ مولانا مدنی: ملانظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نے جو درسِ نظامی تشکیل دیا تھا، اس کا منبع و مرکز وسط ایشیا کی ہند کی طرف گزرگاہیں یعنی افغانستان اور ایران کے علاقے تھی جہاں فارسی کا زیادہ رواج تھا اور انہوں نے یہ نظام اس دور کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیاتھا، لیکن اس کے بعد حالات کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں