کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 13
جس میں یونیورسٹیاں اور کالجز منسلک ہیں اور دوسری طرف جو لوگ دین کے ساتھ اپنے قلبی تعلق کی بنا پر ان مدارس کو اپنے خرچ پر چلا رہے ہیں ، اُنہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان مدارس کا سب سے بڑا جرم یہ قرار دیا جارہا ہے کہ بیرونی دنیا کے مسلمان ان کے ساتھ تعاون کیوں کرتے ہیں ؟ اگر تو بیرونی حکومتیں فرقہ وارانہ انگیخت کی بنا پر تعاون کرتی ہیں تو یہ بات قابل اعتراض ہوسکتی ہے کیونکہ حکومتوں کے مخصوص مفادات ہوتے ہیں ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح پاکستانی عوام مختلف اداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ، اسی طرح بیرونی دنیا میں کام کرنے والے پاکستانی اگران مدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو اس پر حکومت کو بھلا کیا اعتراض ہے؟ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے بے شمار لادین /غیر اسلامی ادارے بھی ہیں کہ بیرونی حکومتیں ان کو علیٰ الاعلان ’ایڈ‘ دیتی ہیں ۔ مثلاً بہت سے مشنری ادارے اور این جی اوز بھاری بھرکم بیرونی گرانٹ سے چل رہی ہیں لیکن ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ آخر یہ دینی مدارس جن کے ساتھ حکومت بھی سوتیلے پن کا سلوک کرتی رہی ہے، کے خلاف بیرونی تعاون کا اس قدر واویلا کیوں کیا جاتا ہے؟ جب پاکستانی سرکاراور دولت مند انہیں درخوراعتناء نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ بھی یتیم سمجھ کر کیا جاتا ہے ؟یہ تو وہی بات ہوئی کہ گھر میں کسی کاکھانا بند کردیا جائے اور پھر اس پر یہ قدغن بھی لگا دی جائے کہ تم ہوٹل سے بھی نہیں کھا سکتے۔ جہاں تک دینی مدارس کے بنیادی تصور کا تعلق ہے تو اس بارے میں ہمیں یہ بات قطعاً فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ یہ دینی مدارس اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا ایک تسلسل اور ہمارے روایتی نظام تعلیم کی یادگار ہیں ۔۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں ناکامی کے بعد جب مسلمان برطانوی سامراج کی زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے تو اس نے مسلم تہذیب کا گلا گھوٹنے اور مغربی کلچر کو فروغ دینے کے لئے درسِ نظامی کے فضلا کو غیر خواندہ قرار دے کر لارڈ میکالے کا وضع کردہ مغربی لا دین نظریہ پر مبنی نصاب پورے ملک میں رائج کردیا تاکہ مسلم تہذیب کبھی پنپ نہ سکے۔ آج جب اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کو بنے ہوئے ۵۴ سال کا عرصہ بیت چکا ہے ،کیا ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ وہی نہیں ہے جو لارڈ میکالے کا وضع کردہ تھا۔ اگرچہ اس کے ساتھ اسلامیات اور پاکستان سٹڈی کے نام سے کچھ پیوند کاری بھی ہوئی لیکن اسلامیات کے ایم اے اور ڈاکٹر یٹ کو آج تک وہ اہمیت حاصل نہیں ہوئی جو انگلش اور دیگر عصری مضامین کو حاصل ہے۔ میں توکہنا چاہوں گا کہ وہ اجتماعی دھارا ،جس میں مدارسِ دینیہ کو شامل کرنے کی بات کی جارہی ہے وہ دراصل وہی لارڈ میکالے کا وضع کردہ نظام تعلیم ہے، لہٰذا دینی مدارس کے نصاب میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ عصری اجتماعی دھارے کو بھی اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔