کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 12
’حکومت طالبان ‘کی تباہی کے موقع پر شروع کیا جارہا ہے ،جبکہ امریکہ کی سربراہی میں ایک دنیا نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جمع ہوچکی ہے اور پاکستان اس عالمی کولیشن کی فرنٹ سٹیٹ ہے اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ دینی مدارس مغرب کو کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں اور وہ دینی مدارس کو نام نہاد دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا لازمی جز سمجھتے ہیں ،جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ اسی بہانہ سے بھارت ہماری سرحدوں کی طرف بڑھ رہا ہے اور ملک پر جنگ کی سی کیفیت طاری ہے ۔ موجودہ صورت حال میں حکومت کا دینی مدارس کے متعلق ایسااقدام کرنا پس پردہ عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔ (۲) دوسری چیز جو اس احساس کو مزید تقویت دے رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر حکومت کا مقصد مدارس کے نظامِ تعلیم کی اصلاح کرنا ہوتا تو یہ کام وزارتِ تعلیم کے سپر دکیا جاتا، لیکن یہ سارا کام وزارتِ داخلہ اور وزارت مذہبی امور کے ذریعے کیا جا رہا ہے ،جس میں وزارتِ تعلیم کا کوئی کردار نہیں ہے، حالانکہ وزارتِ داخلہ کا کام ملک میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے، تعلیمی نظام کی اِصلاح تو وزارتِ تعلیم کا کام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کامقصد نظامِ تعلیم کی اِصلاح نہیں ہے بلکہ امریکہ جو اس وقت دینی مدارس سے شدید خطرہ محسوس کر رہا ہے اسے دہشت گردی کے حوالہ سے مطمئن کرنا مقصود ہے۔ اس چیز سے دینی حلقہ میں خلجان اور عدمِ تحفظ کے احساس کا پیدا ہونا فطری امر ہے، ورنہ نارمل حالات میں حکومت کا یہ اقدام ضرور مستحسن تصور ہوتا اور تمام اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔ سوال: حیرانگی ہے کہ وزارتِ تعلیم اس مہم میں شریک نہیں ہے ؟ مولانا مدنی: جی بالکل! میں یہی کہہ رہا ہوں ، وزارتِ تعلیم اس میں شامل نہیں ہے۔ یہ سارا کام وزارتِ داخلہ اور وزارتِ مذہبی اُمور کے تحت انجام دیا جارہا ہے۔ اگر حکومت کے پیش نظر تعلیم کی اِصلاح کرنا ہی مقصود ہے تو تعلیم سے متعلقہ وزارت کو آگے لانا چاہئے۔ ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے اور سمجھیں گے کہ حکومت واقعی ہمیں ملک کے اجتماعی دھارے میں شامل کرنے میں مخلص ہے۔ دیکھئے! اگر آپ ہمیں ریگولائز(Regulise)کریں گے تو ہم بھی خوش آمدید کہیں گے لیکن اس کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں۔ سوال: مثلاً وہ تقاضے کیا ہیں ؟ مولانا مدنی: پہلا تقاضا یہ ہے کہ ملکی تعلیم (عصری تعلیم) کو اصل قرار دے کر دینی تعلیم کے ساتھ جو گھٹیا سلوک کیا جارہا ہے، اس کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر سرکار جدید کالجزاور یونیورسٹیز کے لئے بیش بہا بجٹ منظور کرتی ہے تو بجٹ کا ایک حصہ مدارسِ دینیہ کے لئے بھی مختص ہونا چاہئے لیکن حکومت ایک تو ان مدارس کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کرتی اور اس پر مستزاد یہ کہ مختلف بیانات کے ذریعے ان کی حوصلہ شکنی بھی کرتی رہتی ہے۔ کیا یہ طرفہ تماشا نہیں ہے کہ ایک طرف مدارس کو اسی ضابطہ کا پابند کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں