کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 11
انٹرویو معین الحسن (نمائندہ ’دی نیوز‘ لاہور) محمد اسلم صدیق (نمائندہ ’محدث‘لاہور) دینی مدارس اور موجودہ سرکاری اصلاحات مدیراعلیٰ ’محدث‘ مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کا "The News"کو انٹرویو ٭ سوال :مولانا ! یہ فرمائیں کہ دینی مدارس میں گریجویشن لیول تک مروّجہ نظامِ تعلیم میں عصری علوم کا حصہ کس قدر ہے ؟ مولانا مدنی : جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت، ۱۹۸۲ء میں تشکیل پانے والے دینی مدارس کے مختلف ’وفاقوں ‘ کی آخری ڈگری ’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘ کے توسط سے منظور کی گئی تھی جس کی رو سے یہ ڈگری عربی اور اسلامیات کی تدریس اور اعلیٰ تحقیق کے لئے ایم اے کے برابر قرار دی گئی۔ یعنی اگر کوئی شخص سکول وکالج میں عربی اوراسلامیات کی تدریس چاہتا ہے تو اسے ایم اے کے برابر شمار کیا جائے گا یا اعلیٰ تعلیم کے لئے اسے ایم فل یا پی ایچ ڈی میں داخلہ مل سکے گا۔ چنانچہ اس بنیاد پر کافی لوگوں نے نہ صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا بلکہ ایک بڑی تعداد کالجوں اور سکولوں کی ملازمت میں بھی گئی۔ البتہ اس ڈگری کی بنا پر تعلیم وتحقیق کے مذکورہ شعبوں کے علاوہ دیگر شعبوں میں ایم اے کی حیثیت سے ملازمت کے لئے عربی/اسلامیات کے سوا کوئی سے دو عصری مضامین میں بی اے کرنا ضروری قرار دیا گیا،جس کے ہمراہ ایک پرچہ مطالعہ پاکستان کا بھی شامل ہو ۔ایسی صورت میں یہ ڈگری ہر میدان میں ایم اے کے برابر متصور ہوگی۔ اس طرح گویا ہم کسی حد تک ملک کے اجتماعی دھارے میں شریک رہے ہیں ․ سوال: حکومت اس وقت مدارس کے نظامِ تعلیم کی اِصلاح کے لئے جو اقدامات کررہی ہے، آپ اس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں گے؟ مولانا مدنی : کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ملک کے تعلیمی اجتماعی دھارے کے اندر دینی مدارس کا کردار زیادہ سے زیادہ موٴثر ہونا چاہئے۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے حکومت اگر تعلیم کی سرپرستی کرتی ہے اور دینی مدارس کے کردار کو زیادہ سے زیادہ موٴثر بنانے کے لئے جدوجہد کرتی ہے تو یہ بات قابل تحسین اور حوصلہ افزا ہے جس میں کسی کو بھی تحفظات کاشکار نہیں ہونا چاہئے،لیکن حکومت اس وقت جو اقدام کررہی ہے، اس میں دو چیزیں ایسی ہیں جودینی حلقوں میں خدشات کا باعث بن رہی ہیں : (۱) ایک تو یہ کہ مدارس کے حوالہ سے یہ سارا سلسلہ افغانستان میں دینی مدارس سے متعلقہ حضرات کی