کتاب: محدث لاہور 257 - صفحہ 10
انسانی عقل کو ہی قانون سازی کا منبع قرار دیتا ہے۔ اس نظریہ میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی ایک بنیادی فلسفہ ہے۔ یہ نظریہ خالصتاً دنیوی معاملات کو ایک انسانی سرگرمی کا محور و مرکز قرار دیتا ہے، ا س میں اُخروی فلاح کا تصور تک نہیں ہے۔تفصیل کیلئے ’محدث‘ جولائی ۲۰۰۰ کے مضمون ’سیکولرزم کا سرطان ‘کا مطالعہ کریں ․ اسلامی دنیا میں ایک سیکولر حکمران کے فکروعمل کی نمایاں ترین مثال مصطفی کمال پاشا کی ہے جس نے خلافت کا خاتمہ کرکے ترکی سے اسلام کو دیس نکالا دینے کی کوشش کی، دینی مدارس کو بند کیا اور حق پرست علما کو پھانسیاں دیں ۔ وہ خدا کے وجود سے انکار کرتا تھا، بلکہ اس کے نزدیک تو مغربی تہذیب ہی ’خدا‘ کا درجہ رکھتی تھی جس کی والہانہ پیروی کی وہ ترغیب دیتا تھا۔ مختصراً یہ کہ اسلام اور سیکولر ازم میں بعدالمشرقین ہے۔ ایک اسلامی ریاست کبھی سیکولر نہیں ہوسکتی۔ ایک اسلامی ریاست ’جدید اور ترقی پسند‘ ہوسکتی ہے، مگر پاکستان میں یہ اصطلاحات جن دانشوروں کی طرف سے استعمال کی جاتی ہیں ، وہ یا تو سیکولر ہیں ، یااشتراکی ہیں یا غیر مسلم ہیں ۔ اسی لئے ان اصطلاحات کا مطلب صاف کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر جدید ریاست کا مطلب ’سیکولرائزیشن‘ ہے تو پاکستانی عوام اس ’تجدد‘کے حق میں نہیں ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ جنرل مشرف صاحب اپنے فکری میلان (Mindset) کو کھول کربیان فرما دیں ۔ انہیں اسلام اور سیکولرزم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر وہ پاکستان کو ’جدید اسلامی‘ ریاست بنانے میں سنجیدہ ہیں تو اپنی پالیسیوں کو دین و شریعت کی روح کے سانچے میں ڈھالیں ۔ پھر وہ دیکھیں گے کہ علما اور دین پسند حلقے، اسلام پسند عوام ان کے دوست و بازو بن کر ان سے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ بصورتِ دیگر اسلام کے نام پر قائم کی جانے والی اس مملکت ِخداداد میں محض اقتدار کے زور پر پاکستانی عوام پر ’اسلام‘ کی بجائے کوئی دوسرا ’ازم‘ مسلط کرنا ممکن نہیں ہے۔ آخر میں ہم دینی مدارس کے زعما اور علماے کرام سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ دینی مدارس اور مساجد کے متعلق نئی رجسٹریشن کے قوانین کے عواقب و نتائج پر ضرور غور کریں ۔ اگر انہیں فرصت کے کچھ لمحات میسر آجائیں تو تاریخ کے اوراقِ پارینہ میں سے ان اوراق کا ضرور مطالعہ کریں جو ترکی میں اتاترک، تیونس میں حبیب بورقبیہ، مصر میں جمال ناصر اور ان کے رفقا کی طرف سے علما اور دینی مدارس کے خلاف خونچکاں ظلم کی داستان سے مزین ہیں ۔ حکمرانوں سے قربتوں کی تلاش کے مواقع تو بہرحال مل ہی جاتے ہیں ، کبھی ان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا فریضہ بھی ادا ہوجائے تو اس کی ادائیگی کے متعلق بھی ضرور تردّد فرمائیں ۔ اس وقت پاکستان جیسی اسلامی ریاست میں سیکولر زم کا جو خطرہ منڈلا رہا ہے، اس سے چشم پوشی اور مداہنت کا مظاہرہ کیا گیا تو وہ اس زندگی میں مسلمانوں کے سامنے اور اس کے بعد دائمی زندگی میں خدا کے سامنے جواب دہی سے ہرگز نہیں بچ سکیں گے اِک تنہا میرے ذمہ کیوں ہے کارِ احتجاج بولنا سب چاہتے ہیں بولتا کوئی نہیں ! (محمدعطاء اللہ صدیقی)