کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 9
بھی تھا۔ جنرل مشرف بار بار جہاد اور دہشت گردی کے درمیان واضح فرق ملحوظِ خاطر رکھنے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے، مگر معلوم ہوتا ہے، امریکہ نے ان کا موقف تسلیم نہیں کیا۔ اب بھارت کو اس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔ امریکہ سے اس قدر تعاون کے باوجود اگر پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے متعلق اس طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے تو آج حکومت کو ٹھنڈے دل سے اپنی پالیسی کے نتائج کا معروضی جائزہ لینا چاہئے۔ آخر پاکستان اپنے اُصولی موقف سے کہاں تک پیچھے ہٹتا چلا جائے گا؟ پاکستان میں جہادی تنظیموں کے خلاف ’کریک ڈاؤن‘ کا کیا بالواسطہ مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جہادِ کشمیر کو ”سرحد پار دہشت گردی“ تسلیم کرچکے ہیں ؟
اگر حکومت دینی مدارس کی ترقی کا کام دیانت داری سے کرنا چاہتی ہے، تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر جس انداز میں اور جس موقع پر اس ’عظیم کارِخیر‘ کا حکومت نے بیڑا اُٹھایا ہے، اس کی روشنی میں موجودہ حکومتی اقدامات کے بارے میں شکوک کا اُبھرنا ایک لازمی امر ہے۔ جناب وزیرداخلہ کا دینی مدارس کے بارے میں جب ’حسن ظن‘ ہی یہ ہے کہ وہاں ’چند قاعدے‘ پڑھائے جاتے ہیں ، تو پھر وہ ان مدارس کے نصاب کے متعلق جس طرح کی اصلاح فرما سکتے ہیں ،اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ دینی مدارس کے بارے میں ان کے ’مبلغ علم‘ کا جب یہ حال ہے ، تو دیگر حکومتی ذمہ داران کا ذکر ہی فضول ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور سیکولر طبقہ دینی مدارس کے خلاف جو جو لغو اعتراضات وارد کرتا ہے، حکومت بلا چون و چرا ان کی صداقت پر ایمان لے آتی ہے۔ حکومت کے کارپردازان کی جانب سے ان اعتراضات کو صحیح سمجھنے کی ایک و جہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ خود سیکولر سوچ کے حامل ہیں ۔ دینی مدارس کے متعلق حکومت کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسی پر صرف دینی راہنما ہی معترض نہیں ہیں بلکہ رائے عامہ سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ حلقے بھی اس بارے میں سخت ذہنی تحفظات کا شکار ہیں ۔ موقر روزنامہ ’نوائے وقت‘ نے ۲۹/ دسمبر ۲۰۰۱ء کے اداریے میں حکومتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تحریر کیا
”اگر حکومت سنجیدگی سے فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتی ہے اور ان دینی مدارس کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کی خواہش مند ہے، تو وہ انہیں قرارِ واقعی وسائل مہیا کرے مگر انہیں اپنے کنٹرول میں لانے اور ان کی حریت ِفکر پر قدغن لگانے سے گریز کرے۔ ان کے نصاب پرنظرثانی جید علماءِ کرام اور ماہرین تعلیم کریں ۔ دین سے ناواقف سرکاری گماشتوں کو اس کی اجازت نہ دی جائے۔
یہ تخصص اور سپیشلائزیشن کے ادارے ہیں ، انہیں کلرک سازی کا کام نہ سونپا جائے، جس طرح میڈیکل کالجوں میں زراعت اور کمپیوٹر سائنسز کی تعلیم نہیں دی جاتی اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں درسِ نظامی کے مضامین پڑھانے کی تک نہیں ، اسی طرح دینی مدارس میں دنیوی علوم بس اتنے ہی