کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 8
رواداری کا اظہار شاید جنرل مشرف کے لئے بھی حیرت کا باعث بنا ہو۔
مذکورہ بالا خوشگوار ملاقات کے باوجود عملی طور پر دینی حلقوں میں حکومتی پالیسی کے متعلق خدشات کا ابھی تک ازالہ نہیں کیا جاسکا۔ جہادی تنظیموں اور دینی مدارس کے خلاف حکومتی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ حکومت نے پہلے مرحلہ کے طور پر تقریباً۱۵۰/ دینی مدارس کو بند کرنے کے لئے فہرست مرتب کرلی ہے۔ یکم جنوری کے بعد تادمِ تحریر (۸/جنوری) شاید ہی کوئی دن ایسا گذرا ہو جب دینی تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے اور ان کے سینکڑوں کارکنان کی گرفتاری کی خبریں شائع نہ ہوتی ہوں ، مثلاً
۱) ”کراچی میں دینی مدارس اور جہادی تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے، مزید ۱۰۰ گرفتار“ (تین کالمی سرخی، نوائے وقت: ۳/ جنوری ۲۰۰۲ء)
۲) ”جہادی ومذہبی تنظیموں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن، سینکڑوں گرفتار، کراچی میں مدرسوں کے دو خطیبوں سمیت ۲۴۵/ افراد پکڑے گئے، اندرونِ سندھ ۳۰۰ گرفتار“ (نوائے وقت:۵/جنوری ۲۰۰۲ء)
۳) ”پنجاب میں چھاپے، مذہبی تنظیموں کے درجنوں رہنما اور کارکن گرفتار“ ( جنگ: ۴/ جنوری ۲۰۰۲ء)
امریکہ صدر جارج ڈبلیو بش نے مذہبی تنظیموں کے خلاف حکومت کے ’کریک ڈاؤن‘ پر جنرل پرویز مشرف صاحب کو خصوصاً شاباش دی ہے۔ بھارت نے بھی جہادی تنظیموں کے خلاف اس کارروائی کو ’مثبت قدم‘ قرار دیا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ نے کہا
” پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے مطلوب افراد کی فہرست دی گئی، عالمی برادری کو ثبوت دیے اور دباؤ بالآخر ثمر آور ثابت ہوا۔“ (نوائے وقت ، یکم جنوری ۲۰۰۲ء)
اگرچہ پاکستانی حکومت کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ حافظ محمد سعید اور دیگر جہادی تنظیموں کی گرفتاری دباؤ کا نتیجہ نہیں (نوائے وقت، یکم جنوری ۲۰۰۲ء) مگر عام پاکستانی ان اقدامات کو امریکہ اور بھارت کے مشترکہ دباؤ کا نتیجہ ہی قرار دیتا ہے۔ بھارت تو شروع ہی سے کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کو ’سرحد پار دہشت گردی‘ قرار دیتا رہا ہے۔ ۱۱/ ستمبر کے بعد تو بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے ’جہادِ کشمیر‘ کو دہشت گردی قرار دینے کے لئے عالمی سطح پر بھرپور ابلاغی مہم شروع کردی۔ امریکہ اور برطانیہ نے بارہا بھارتی موقف کی تائید میں بھی بیانات دیئے ہیں ۔ بیرونی ذرائع ابلاغ بھی ان گرفتاریوں کو امریکی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔
۱۱/ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ سے تعاون کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ’کشمیر کاز‘ کا تحفظ