کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 7
سے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حاصل ہو، اسے پامال کیا جائییا وجہ بیان کئے بغیر کوئی اس پر چڑھ دوڑے یا کوئی الزام لگا کر اسے قتل کردے، بے خبری میں یا باخبر کرکے ایسا کرے، یہ دہشت گردی کی حقیقتہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس وقت جس دہشت گردی کامسئلہ درپیش ہے وہ عالمی و ریاستی دہشت گردی ہے۔ عدل و انصاف کی بنیاد یہ ہے کہ بے گناہ کو تحفظ حاصل ہو اور مجرم کو جرم کی سزا ملے۔ محض الزام لگا کر بلاثبوت کسی پر حملہ کرنا، اس کے امن کو ختم کرنا دہشت گردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی دہشت گردی کے خلاف ’سٹینڈ‘ لینے کی ضرورت تھی۔ اس لئے کہ دہشت گردی کے خلاف ’سٹینڈ‘ نہ لیا جائے توپھر ظلم کا دور دورہ ہوگا۔ امریکہ نے واضح طور پر افغانستان پر بمباری کرکے دہشت گردی کی ہے۔ افغانستان میں چالیس ہزار بے گناہ مسلمان قتل کردیے گئے ہیں ۔ ایک جنرل کے دور میں روس سے افغانستان نے تیس لاکھ شہدا کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی تھی اور اس وقت امریکہ نے چالیس ہزار مسلمانوں کو شہید کرکے افغانستان پر تسلط جما لیا ہے۔ انہوں نے جنرل مشرف سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ حکمت و تدبر کی بات کرتے ہیں ، یہ آپ کا امتحان ہے۔ اگر آپ امریکہ کی دہشت گردی سے نجات کی کوئی راہ نکال سکیں تو یہ اقدام بہت اچھا ہوگا۔ توبہ سے بڑے سے بڑا گناہ معاف ہوسکتا ہے۔ مولانا عبدالمالک نے کہا کہ اس وقت آپ کی فوج مجاہدین کا گھیراؤ کر رہی ہے، انہیں تلاش کرکے گرفتار کررہی ہے۔ مجاہدین نے کوئی جرم نہیں کیا، ملک و ملت کی خدمت کی ہے، ملا عمر اور اسامہ دہشت گرد نہیں ہیں ۔ آپ مجاہدین کا گھیراؤ نہ کریں اوردینی جماعتوں سے کشمکش ختم کردیں ۔ اس نشست میں مولانا محمد حنیف جالندھری، مفتی رفیع عثمانی، مولانا منیب الرحمن اور چند دیگر علماء نے بھی بات کی۔ چونکہ ان کا عمومی انداز حکومت کے ساتھ مصلحت کیشی اور تعاون کے اظہار پر مبنی تھا، اسی لئے اس کی تفصیلات عام سرکاری ملاقاتوں کی سی ہیں ، البتہ موقع کی مناسبت سے جہاں تمام علما نے متفقہ طور پر حکومت کو بھارت کے خلاف ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا وہاں علما نے نئے آرڈیننس کے حوالہ سے چند تحفظات بھی پیش کئے جومجلس کی حد تک قبول کرلئے گئے۔ علما نے جنرل پرویز مشرف سے معین الدین حیدر کے بیانات کا نوٹس لینے کی درخواست بھی کی جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ بھلے آدمی ہیں ، اگر آپ لوگوں کوان سے شکایات ہیں تو انہیں سمجھایا جائے گا۔ علما پر جنرل مشرف صاحب کے خیالات و نظریات کا اس قدر خوشگوار اثر پڑا کہ انہوں نے وقتی طور پر حکومت کے خلاف کسی قسم کا احتجاجی پروگرام بھی ملتوی کردیا۔اسی مجلس میں ایک عالم دین نے یہ انکشاف کرکے سب کو حیران کردیا کہ جنرل مشرف ایک مدرسہ کو چندہ بھی دیتے ہیں ۔ طالبان کے حامی علما کی طرف سے اس وسعت ظرفی اور