کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 63
پابندی کو طالبان کی وحشیانہ پالیسی قرار دیا گیا تو کبھی طالبان کے جہادی کارناموں کو بنیاد پرستانہ قرار دے کر ان کا امیج خراب کیا گیا۔ ۱۱/ ستمبر کے واقعات کے بعد تو طالبان اور اسامہ بن لادن کے خلاف اس قدر شدید پراپیگنڈہ کیاگیاکہ یورپ و امریکہ میں طالبان اور اسامہ بن لادن کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل پڑا۔نتیجتاً وہاں کا عام آدمی طالبان کو آسیب اور عذاب سمجھنے لگا !!
پاکستان کے مغرب زدہ ابلاغی حیوان بھی اس شیطانی مہم میں کود پڑے۔ انہوں نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ یہ پراپیگنڈہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔ آج ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ میں طالبان کے خلاف جونفرت اور ناپسندیدگی کے جذبات پائے جاتے ہیں ، یہ ان کی آزادانہ سوچ کا نتیجہ نہیں ہیں ۔ یہ مغرب کی طرف سے آنے والا ابلاغی چارہ ہی ہے جس کی یہ جگالی کررہے ہیں ۔ ہمارے نام نہاد دانشو ر طالبان کو اگر ’ظالمان‘ کہہ رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی ان کی وہی ابلاغی محکومی ہے۔ ان کی سوچیں مغرب کے حیوانی ابلاغ کے زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں ۔
مسلمان ملکوں کے حکمران مغرب کی حیوانی ابلاغی مہم کے زیر اثر ہیں ۔ ان میں سے سب امریکہ کی دھونس کا شکار نہیں ہیں ، بہت سے ایسے بھی ہیں جو طالبان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈہ کو درست سمجھتے ہیں ۔ ملت ِاسلامیہ اس افسوسناک صورتحال سے کبھی باہر نہیں نکلے گی جب تک کہ وہ اپنا جوابی ابلاغی نیٹ ورک قائم نہیں کرلیتی جس کے ذریعے مغربی ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈہ کا توڑ کیا جاسکے۔ الجزیرہٹیلی ویژن نے افغان جنگ میں طالبان اور اسامہ بن لادن کا موقف پیش کرکے مغربی ذرائع ابلاغ کو کافی پریشان کیا ہے۔ مگر یہ محض ایک ’ابلاغی جزیرہ‘ تھا جو مغربی ذرائع ابلاغ کے ابلاغی سمندر میں نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں ۔