کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 61
اور حسب ِضروت اس میں معمولی ردّوبدل یا مکمل ہی اپنے نام پر شائع کردیتے ہیں ۔
یہ بات افراد کے ساتھ ساتھ ابلاغی اداروں پر بھی صادق آتی ہے۔ ہمارے انگریزی اخبارات میں شائع شدہ اکثر خبریں غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کی ارسال کردہ ہوتی ہیں ۔ وہ ان کی صداقت میں ذرہ برابر شک نہیں کرتے، اس لئے بغیر کسی تحریف کے من و عن شائع کردیتے ہیں ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ پر چھایا ہوا ابلاغی حیوانوں کا یہ طبقہ مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے حاصل شدہ ابلاغی چارے کی ہوبہو نقالی اور جگالی کو ہی بلاغت و ابلاغ کی معراج سمجھتا ہے!!
اس فکری غلامی کے باوجود اس طبقہ کو دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں رواداری، روشن خیالی، ترقی پسندی اور جدیدیت کا علم بلند کئے ہوئے ہے۔ اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں کو یہ رجعت پسند، دقیانوس، ’آؤٹ آف ڈیٹ‘، عصر حاضر کے تقاضوں سے نابلد، جاہل، مولوی، ملا، ترقی مخالف اور علم دشمن جیسے القابات سے نہایت تواتر سے نوازتے رہتے ہیں ۔
حیوانی ابلاغ
مغرب و مشرق میں پائے جانے والے ابلاغی حیوانوں کے اس اجمالی تذکرے کے بعد ’حیوانی ابلاغ‘ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ مضمون ناقص و نامکمل رہے گا۔ ’حیوانی ابلاغ‘ سے مراد کوئی مخصوص طبقہ، کلاس یا گروہ نہیں ہے۔ یہ دراصل وہ حکمت ِعملی، طریقہ کار اور Approach ہے جس میں ذرائع ابلاغ پر قابض طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ اور سوچ کے فروغ کے لئے میڈیا کواستعمال کرتے ہوئے ابلاغی حیوانوں کے فکروعمل کو مطلوبہ ڈھانچے و منصوبے کے تحت تشکیل دیتا ہے۔حیوانی ابلاغ سے مراد ایسا مواد، انفارمیشن اور نظریات ہیں جن کے پھیلانے سے انسانی معاشرے میں تعمیری عمل کی بجائے تخریبی سوچ ، منفی طرزِ عمل اور حیوانیت فروغ پاتی ہے۔ مغربی میڈیا بے حد جارحانہ طریقے سے’حیوانی ابلاغ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مغرب کی ایسی پالیسی کی وجہ سے ذرائع ابلاغ استعماری قوتوں کے ہاتھ میں بے حد موٴثر کارگر ہتھیار کا کام کررہے ہیں ۔ دیگر کئی شیطانی ہتھکنڈوں کی طرح ’حیوانی ابلاغ‘کی ایجاد و اختراع کا سہرا بھی یہودیوں کے سر ہے۔ ’حیوانی ابلاغ‘کی مختلف صورتیں قابل مشاہدہ ہیں ۔ آج پوری دنیا میں جو Pornography (فحاشی) کا سیلاب آیا ہوا ہے، یہ ’حیوانی ابلاغ‘کی ہی بدترین صورت ہے۔ جنسی خواہشات و حیوانیت کو بھڑکا کر پورے معاشرے کواخلاقی زوال سے دوچار کرنا اس حیوانی ابلاغی مہم کا اصل مقصد ہے۔
اس حیوانی ابلاغ نے مغرب میں جنسی آوارگی کو ’تہذیب‘ کا نام دے کر وہاں کے خاندانی نظام کو