کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 60
جائیں گے جن کا طرزِ معاشرت تہذیب ِمغرب کی مخلصانہ پیروی کا مکمل نمونہ نظر آئے گا۔ لیکن جب مشرق و مغرب کی تہذیبوں کا وسیع تناظر میں موازنہ کیا جاتاہے ، تو پھر اس محدود اقلیت کو استثنائی درجہ میں ہی رکھا جاسکتا ہے۔ ان کا طرزِ زندگی پورے معاشرے کی اجتماعی صورتحال کا آئینہ دار نہیں ہے۔ البتہ مغرب کے ابلاغی حیوانوں اور ان بدیسی ابلاغی حیوانوں میں ا یک واضح اور اُصولی فرق پایا جاتاہے۔ جہاں مغرب کے ابلاغی حیوان اپنی ابلاغی ضروریات کے لئے خود کفیل ہیں ، وہاں ہمارے مشرقی ابلاغی حیوان اپنے ابلاغی ’چارہ‘ کے لئے اہل مغرب پر بری طرح انحصار کرتے ہیں ۔ انہیں مشرقی ذرائع ابلاغ کی طرف سے پیش کردہ ابلاغی چارہ قطعاً پسند نہیں ہے، نہ ہی یہ اسے اپنی شناخت کا ذریعہ بنانا پسند کرتے ہیں ۔ جو سکہ بند ابلاغی حیوان ہیں ، آپ انہیں مشرقی ذرائع ابلاغ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے شاذ ہی دیکھیں گے۔ یہ واضح رہے کہ ’چارہ‘ کا لفظ ’حیوانیت‘کی جانب ان کے میلانِ طبع کی بنا پر ایک تقابلی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، یہاں اس کے لغوی معانی مقصود نہیں ہیں ۔ ہمارے ہاں ابلاغی حیوانوں کی اچھی خاصی تعداد کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے ہے۔ ان میں سے مختلف انواع و اقسام کے ابلاغی حیوان آپ کو مل جائیں گے۔ زیادہ تر اپنے آپ کو لبرل، ترقی پسند اور ماڈرن کہلانا پسند کرتے ہیں ، حقیقت ِحال چاہے اس کے برعکس کیوں نہ ہو۔ مقامی معاشرے کی جو قابل ذکر روایت یا سماجی قدر ہے، اس میں انہیں رجعت پسندی کی بو آتی ہے۔ وہ اپنی خوشی سے نہیں بلکہ بامر مجبوری اس بدقسمت زمین کو اپنے وجود کے زیر بار احساں رکھے ہوئے ہیں ۔ جونہی وہ مجبوریوں کی قید سے آزاد ہوتے ہیں ، یورپ یا امریکہ کی طرف عازمِ سفرہوتے ہیں ۔ مجھے بدیسی ابلاغی حیوانوں کے ایک مخصوص گروہ کا ذکر خاص طور پرکرنا ہے۔ یہ صحیح معنوں میں ’ابلاغی حیوان‘کی تعریف پر پورا اترتے ہیں کیونکہ ذرائع ابلاغ سے ان کا اٹوٹ انگ رشتہ ہے بلکہ یہ ذرائع ابلاغ پر بہت حد تک چھائے ہوئے بھی ہیں ۔ ٹیلی ویژن اور انگریزی اخبارات بالخصوص ان کی آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں ۔ یہ دانشور، سکالر، انٹیلکچول کہلوانے میں نہ صرف فخر محسوس کرتے ہیں ، بلکہ بلاشرکت غیرے اس کے اصل مصداق ہونے پر اصرار بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے ’دانشوری‘ کو اس طرح قبضہ قدرت میں لے رکھا ہے جس طرح کسی کتاب کا مصنف’جملہ حقوق محفوظ‘ لکھوا کر کتاب درازی (Pirating) کے ممکنہ خطرات سے کتاب کو اپنے تئیں تحفظ عطا کرتا ہے۔ انٹرنیٹ، ای میل اور اس طرح کی دیگر سائنسی ایجادات نے ان ابلاغی حیوانوں کا کام بے حد آسان بنا دیا ہے۔ اب وہ معمولی سی کاوش کے بعد امریکہ، برطانیہ یا یورپ کے کسی بھی اخبار سے کوئی مضمون، کالم، یا رپورٹ ’ڈاؤن لوڈ‘ کرلیتے ہیں