کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 6
ہے، اس سے اسلامی دنیا نہایت پریشان ہے کیونکہ پاکستان کے اس کردار کے بعد وہ پاکستان سے اپنے ’محافظ‘ ہونے کے بارے میں کوئی اچھی اُمید نہیں رکھ سکتے گویا پاکستان کی فوجی ہیبت ختم ہوکر اس کی کمزوری واضح ہوگئی ہے۔ جہاں تک امریکی سپرپاور کی مدد کرتے ہوئے پاکستان کا نام نہاد دہشت گردوں کے خلاف عالمی اتحاد میں شامل ہونے کا تعلق ہے، سیکولر قوتیں اسلامی دنیا کو یہی باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ نہیں ہے۔ چنانچہ کبھی اسامہ بن لادن کو دہشت گردی کا ہوا بنا کر اور اب پاکستان میں جہادی تنظیموں کو ’دہشت گرد‘ دکھا کر انہیں کچلنے کے نعرے بلند ہورہے ہیں ، حالانکہ حقیقتاً یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔
مولانا مدنی نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا: چونکہ پاکستان پہلی مرتبہ اسلام دشمن قوتوں کی بلیک میلنگ میں آچکا ہے، اس لئے اس کا آئندہ کے لئے بلیک میلنگ سے بچنا بہت مشکل ہے۔ ایک طرف اگر یہ درست ہے کہ طالبان اور جہادی تنظیمیں پاکستان کی پروردہ ہیں تو دوسری طرف پاکستان ہی کے ہاتھوں ان کو تباہ کرنے اور کچلنے کے انتظامات کئے جارہے ہیں ۔ انہوں نے خدشہ کا اظہار کیا کہ یہ سلسلہ یہاں نہیں رکے گا بلکہ آہستہ آہستہ تمام اسلامی ادارے اور تحریکیں اس کی زد میں آجائیں گی۔ اسلامی ملکوں میں سے بالخصوص وہ ملک پہلا نشانہ بنیں گے جنہوں نے طالبان کو تسلیم کیا تھا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمارا ازلی دشمن بھارت صرف ڈرا دھمکا کر اپنے ناجائز مطالبات منوا رہا ہے، لیکن بہت جلد وہ وقت بھی قریب آتا دکھائی دیتا ہے جب افغانستان کی طرح پاکستان کو تباہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پھر درجہ بدرجہ دیگر اسلامی ملکوں کی باری آئے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اُصولوں پر سٹینڈ لینا چاہئے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہماری اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ موجودہ فوجی حکومت کو اسلام کی حفاظت اور نیو کلیرپاور کے تحفظ کی توفیق دے۔
جنرل پرویزمشرف نے حافظ عبدالرحمن مدنی کی ان معروضات کواطمینان سے سنا اور اپنی طرف سے ان اعتراضات کا تفصیلی جواب دیا۔ جنرل صاحب نے کہا کہ آئندہ سال دسمبر میں جب آپ کو پھر بلایا جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کا یہ تبصرہ اور خوف درست نہیں تھا بلکہ ہماری حکومت کا موجودہ موقف ہی درست ہے۔ انہوں نے علماء سے کہا: ”آپ مجھ پر اعتماد کریں ۔“
حافظ عبدالرحمن مدنی کے علاوہ شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک نے بھی جنرل پرویزمشرف سے حکومتی پالیسی بدلنے کی پرزور استدعاکی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شریعت میں دہشت گردی یہ ہے کہ ایک ایسا شخص یا ملک جوبے گناہ ہو، اسے شرع اور قانون کی طرف