کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 59
فون، اخبارات، کتابیں ، آلاتِ موسیقی، غرض درجنوں ذرائع ابلاغ صبح سے لے کر شام تک اس کی زندگی کے ایک لازمی جز کی طرح اس کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔ ۲۴ گھنٹوں میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں نشریات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہو۔ اب تو ایک نہیں سینکڑوں ٹی وی نیٹ ورک صبح شام پروگرام پیش کرتے رہتے ہیں ۔ جدید معاشرے میں سماجی رشتوں کی جگہ بھی بہت حد تک ذرائع ابلاغ نے لے لی ہے۔ خاندان کے مختلف افراد کی باہمی ملاقات میں بھی ٹیلی ویژن چلتا رہتا ہے۔ بچوں کے لئے ٹیلی ویژن نے والدین کے علاوہ ایک دلکش اور دلچسپ گائیڈ کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں بچے ماں باپ کی باتوں کو ٹی وی وغیر ہ سے زیادہ وقت دیتے ہوں ۔ دوست کا کردار توبہرحال میڈیا اداکرتا ہی ہے۔میڈیا سے دوستی ایک خبط سے کم نہیں ، اس کی موجودگی اچھے خاصے قریبی دوستوں کی یاد بھلا دیتی ہے۔ دوستوں سے دوستی نبھانے میں بھی میڈیا برابر کا شراکت دار ہوتا ہے۔ شاید ہی نوجوانوں کی کوئی دوستانہ مجلس ایسی ہو جس میں وقت گزاری کے لئے میڈیا کا استعمال نہ کیا جاتا ہو۔ اس طولانی تمہید کے بعد میرا خیال ہے کہ اب مجھے وہ بات کردینی چاہئے جو وجہ تحریر مضمون ہذا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج کا مغربی انسان ’ابلاغی حیوان‘ ہے۔ وہ انسان اور حیوان کے باہمی تعلق کو ڈارون اور فرائیڈ کی آنکھ سے دیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن مجھے حسن ظن ہے کہ اہل مغرب اس ترکیب کو اپنے حق میں تعریف و توصیف پر ہی محمول کریں گے۔ وہ اپنی زندگی میں ذرائع ابلاغ کے تعلق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ ’سماجی حیوان‘ کے ساتھ ساتھ انہیں اگر ’ابلاغی حیوان‘ کے اعزاز سے بھی سرفراز کردیا جائے تو آخر انہیں پریشانی کیا ہوسکتی ہے؟ آپ امریکہ اور یورپ میں کسی بازار میں کھڑے ہو کر عام آدمی سے سوال کیجئے کہ آیا وہ ذرائع ابلاغ کے بغیر زندہ رہ سکے گا، تو گمانِ غالب ہی نہیں ، راقم کویقین کامل ہے کہ ۹۹․۹۹ فیصد افراد نہ صرف اس کا جواب ’نہیں ‘ میں دیں گے بلکہ سوال پوچھنے والے کی ذہنی صحت کے متعلق اپنے خاص اسلوب میں تشویش کا اظہار بھی ضرور کریں گے۔ میرے بس میں ہوتا تو میں ۹۹․۹۹ فیصد کی بجائے ۱۰۰ فیصد ہی لکھ دیتا مگر جہاں انسان ہوں ، وہاں کچھ نہ کچھ استثنائی صورتوں کی گنجائش بہرحال رکھنی پڑتی ہے۔ ابھی تک ہمارے استدلال کا دائرہ مغربی فرد کو ہی محیط رہا ہے۔ زیر بحث معاملے میں اہل مغرب کی تحدید و تخصیص ان کے خلاف کسی تعصب کی بنا پر نہیں ہے۔ ہمیں تسلیم ہے کہ مشرق میں بھی اب اچھے خاصے ’ابلاغی حیوان‘ پیدا ہوگئے ہیں ۔ لاہور جیسے شہر میں تو ایسے چند ایک نہیں ، سینکڑوں گھرانے ضرور مل