کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 57
تہذیب ِمغرب کے فتنے محمدعطاء اللہ صدیقی ابلاغی حیوان، حیوانی ابلاغ اور طالبان یونانی فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ انسان ’سماجی حیوان‘ ہے جو سماج کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا، اسے ہر صورت میں اپنے جیسے انسانوں سے ربط و تعلق استوار رکھنا پڑتا ہے۔ اہل مغرب کو ارسطو کایہ حکیمانہ قول اس قدر پسندآیا ہے کہ انہوں نے اس کی بنیادپر اپنا پورا فلسفہ حیات مرتب کرنے کی کوشش کی ہی۔ وہ اسے ایک’آفاقی حقیقت‘کا درجہ دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ذہین دماغوں نے ہمیشہ انسان کے اندر انسانیت تلاش کرنے کی بجائے اس کے اندر چھپی ہوئی حیوانیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک حیوانیت کے مقابلے میں ’انسانیت‘ ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ انسانیت کو وہ محض ایک لبادہ، تکلف اور تصنع ہی سمجھتے ہیں ۔ مغرب میں صدیوں سے قائم انسان کے بارے میں اسی تصور کا نتیجہ ہی تھا کہ جب چارلس ڈارون نے اپنی شب و روز کی ’تحقیق‘اور عرق ریزی کے بعد بندر کو انسان کا ’جدامجد‘ قرار دیا تو اہل مغرب نے انسانی ارتقا کے اس واہیات فلسفہ کو ردّ کرنے کی بجائے اسے خاصی پذیرائی بخشی۔ سگمنڈ فرائیڈ نے ۱۹۰۰ء میں اپنا معروف تحلیل نفسی کا نظریہ پیش کرکے انسان کے اندر جنس یا حیوانی جبلت کو انسان کا محوری و مرکزی جذبہ قرار دیا تو اہل مغرب نے بے حد ہیجان خیز اسلوب میں اس اچھوتے اکتشاف کو خوش آمدید کہا۔ جنسی جبلت کو تقدس عطا کرنے والا یہی فلسفہ ہی تو تھا جس نے ۱۹۶۰ء کے عشرے میں یورپ وامریکہ میں جنسی انقلاب برپا کردیا۔ تب سے اہل مغرب صرف فکری اعتبار سے ہی نہیں ، عملی اعتبار سے بھی ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ انسان بنیادی طور ’حیوان‘ ہی ہے۔ پاکستان میں اگر کسی کو اب تک اہل یورپ کی حیوانیت پسندی کے بارے میں کچھ شک تھا، تو افغانستان میں ان کی وحشت وبربریت کے ہولناک مظاہرے کے بعد یہ شک باقی نہیں رہنا چاہئے!! مغرب کے سیاسی فلاسفروں نے ارسطو کے فلسفہ میں معمولی سا ردّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے انسان کے سیاسی اُمور سے غیر معمولی شغف اور سیاسی اداروں پر اس کی بے حد زیادہ انحصاریت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے ’سیاسی حیوان‘ قرار دیا۔ ۱۹۹۵ء میں امریکہ کے ایک پروفیسر کی کتاب نے فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ اس کا عنوان تھا "The Moral Animal" یعنی انہوں نے