کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 56
نہیں ہوں گی بلکہ ان مدارس پر ریاستی کنٹرول مہم میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔ اس لئے ہم دینی مدارس کے اربابِ حل و عقد کی خدمت میں عرض کریں گے کہ
٭ تمام مکاتب ِفکر کے دینی مدارس کے الگ الگ وفاق اپنا وجود اور نظم قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ بورڈ قائم کریں اور مشترکہ معاملات کو اس بورڈ کے ذریعہ کنٹرول کیا جائے۔
٭ درسِ نظامی کے موجودہ نصاب کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں انگریزی زبان اور عصری علوم کو بنیادی معلومات کی حد تک ضرور شامل کیا جائے۔
٭ گفتگو اور مباحثہ کے جدید اسلوب اور انگریزی /اردو میں صحافتی زبان سے طلبہ کو متعارف کرایا جائے
٭ اسلام کو بطورِ نظام حیات پڑھایا جائے اور دیگر نظام ہائے حیات کے ساتھ تقابلی مطالعہ کے ساتھ نظامِ شریعت کی اہمیت و ضرورت کو ان کے ذہنوں میں اجاگر کیا جائے۔
٭ مدارس کی درجہ بندی کرکے ہر علاقہ میں وہاں کی ضروریات کے مطابق مدارس کے قیام کے لئے قومی سطح پر منصوبہ بندی کی جائے۔
٭ اباحت ِمطلقہ (فری سوسائٹی) کے مغربی تصور اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کے پس منظر اور نتائج سے طلبہ کو آگاہ کیا جائے۔
٭ دینی، ا خلاقی اور روحانی تربیت کا بطورِ خاص اہتمام کیا جائے اور دینی مقاصد کے حصول کے لئے ان میں مشنری جذبہ اجاگر کیا جائے۔
٭ مالی امداد کے حصول کے لئے باوقار اور آبرو مندانہ طریق کار کی پابندی اور غیر معیاری طریقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس سلسلہ میں وفاق کی سطح پر ضابطہ اخلاق طے کرکے مدارس سے اس کی پابندی کرائی جائے۔
٭ اساتذہ کے مشاہروں اور طلبہ کی رہائش، خوراک اور صفائی کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور کام کو پھیلانے کی بجائے تھوڑے اور معیاری کام کو اُصول قرار دیا جائے۔
٭ مسلم معاشرہ میں دینی مدارس کی اہمیت، خدمات اور کردار کے حوالہ سے معیاری مضامین کی انگلش اور اُردو میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔
ہمیں اُمید ہے کہ دینی مدارس کے اربابِ حل و عقد ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرما کر اصلاحِ احوال کی ضروری تدابیر اختیار کریں گے تاکہ دینی مدارس کا یہ نظام ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اسلامی علوم کی حفاظت اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں مفید اور موٴثر کردار ادا کرسکے۔ ( ’الشریعہ‘ جنوری ۱۹۹۵ء)