کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 54
اختیار کیا جاتا ہے، اس سے دینی اداروں کے اعتماد اور وقار کا گراف تیزی کے ساتھ نیچے جارہا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ کی بات نہیں کہ کاروباری شہروں میں بہت سے دکاندار رمضان المبارک کے دوران سفیروں کی یلغار کے خوف سے خود اپنی دکانوں پر بیٹھنے سے کترانے لگے ہیں اور مساجد میں نمازوں کے بعد کھڑے ہوکر اپیل کرنے والے سفیروں کو اب نمازیوں نے ٹوکنا شروع کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پریشان کن صورتحال پاکستان سے باہر لندن میں دیکھنے میں آتی ہے جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مدارس کے سفراء نما زکے بعد کھڑے ہوکر اپنے مدرسے کے لئے اپیل کرتے ہیں اور پھر دروازے پر رومال بچھا کربیٹھ جاتے ہیں ، جہاں نمازی گزرتے ہوئے پاؤنڈ اور سکے پھینکتے جاتے ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ میرے جیسے حساس دینی کارکن کی نظریں شرم سے زمین پر گڑ جاتی ہیں ۔ ابھی چند ماہ قبل لندن میں ایک مسلم نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا، جس میں اس نے بتایا کہ برطانیہ میں پلنے بڑھنے والے مسلمان نوجوانوں کی اکثریت مساجد میں اس لئے نہیں آتی کہ ایک تو ائمہ اور خطباء کی زبان ان کی سمجھ میں نہیں آتی، دوسرے جن موضوعات پر وہ گفتگو کرتے ہیں ان سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تیسرے ہر نماز کے بعد کسی نہ کسی مدرسہ کا سفیر چندہ کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور ان کے پاس ہر آدمی کو دینے کے لئے اتنے پیسے نہیں ہوتے۔ یہ صورتِ حال برطانیہ کی مساجد کی ہے جب وہاں کا یہ حال ہے تو اپنے ملک کی مساجد کا کیا حال ہوسکتا ہے؟ اور قیاس کرنے کی ضرورت کیا ہے، سارا منظر تو ہم رمضان المبارک میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ یہ بات نہیں کہ لوگ دینی مدارس سے تعاون نہیں کرتے، اس لئے مدارس کو مجبوراً ایسے طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں ۔ یہ بات نہیں ہے کیونکہ بیسیوں ایسے اداروں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جن کا سالانہ بجٹ لاکھوں سے متجاوز ہے اور بعض کا کروڑوں میں قدم رکھ رہا ہے، وہ مدارس نہ سرکاری امدا د لیتے ہیں اور نہ ہی ان کے سفیر اس طرح چندہ کے لئے گھومتے پھرتے ہیں ، مگر ان کا بجٹ صاحب ِخیر مسلمانوں کے تعاون سے باوقار طریقے سے فراہم ہوجاتا ہے۔ یہ ہے دینی مدارس کا ماضی اور حال جسے اب پاکستان کی وزارتِ داخلہ اور اس سے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی تحقیقات اور سروے کی بنیاد بنا کر دنیا کو ان کی منفی تصویر دکھانے کے درپے ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا تو یہ نظریاتی محاذ ہے، وہ مغربی حکومتوں اور لابیوں کی نمائندہ ہے جن کا موقف یہ ہے کہ اسلام آج کے دور میں بطورِ ’نظامِ زندگی‘ قابل عمل نہیں ہے اور اسلامی احکام و قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں ، اس لئے عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو ناکام بنانا ضروری ہے ،