کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 53
اگرچہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہیں لیکن اپنے اپنے مکتب ِفکر کی حد تک انہوں نے باہمی ربط کا ایک نظام قائم کرلیا ہے جس سے امتحانات کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور کچھ دیگر فوائد بھی سامنے آئے ہیں ، لیکن معاشرہ میں دینی مدارس کی کارکردگی اور اثرات کا دائرہ جس قدر وسیع ہے، اس کے مطابق موجودہ ربط و نظم قطعی طور پر ناکافی ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مدارس کے قیام میں کوئی منصوبہ بندی اور ترجیحات نہیں ہیں ۔ جہاں جس کا جی چاہتا ہے ضروریات اور تقاضوں کو ملحوظ رکھے بغیر کسی بھی معیار اور سائز کا دینی ادارہ قائم کرلیتا ہے اور چونکہ ان کی چیکنگ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، اس لئے کارکردگی اور اخراجات کا دائرہ شخص واحد یا زیادہ سے زیادہ اس کے منظورِ نظر اشخاص تک پھیلا ہوتا ہے جو تعلیمی اداروں کی بجائے ’مذہبی دکانیں ‘ کہلانے کے زیادہ حقدار ہیں اور ان میں مالی بدعنوانیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ ضیاء الحق مرحوم کے دور میں سرکاری زکوٰة کا ایک حصہ دینی مدارس کے لئے مخصوص کیا گیا تو اس کے حصول کے لئے دنوں میں کئی مدرسے وجود میں آگئے اور پھر سرکاری زکوٰة کی رقم حاصل کرنے کے لئے رشوت، سفارشات اور بدعنوانیوں کے جو دروازے کھلے، انہوں نے دینی اداروں کو بھی دیگر سرکاری محکموں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اس سلسلہ میں دینی مدارس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ میں وہ معیاری دینی ادارے ہیں جنہوں نے سرکاری زکوٰة کی وصولی سے گریز کیا اور اپنی چادر کے دائرے میں پاؤں پھیلانے کے باوقار طریق کار پر گامزن رہے۔ دوسرے نمبر پر وہ دینی ادارے ہیں جو اپنی کارکردگی اور معاملات میں دیانت اور اعتماد کے معیار پر پورے اترتے ہیں اور انہوں نے سرکاری زکوٰة وصول کرکے اسے صحیح مصرف پر صرف کیا۔ اور تیسرے نمبر پر وہ مدارس ہیں جنہوں نے سرکاری زکوٰة وصول اور خرچ کرنے میں کسی دینی اور اخلاقی معیار کی پابندی کا تکلف گوارا نہیں کیا۔ بدقسمتی سے سرکاری ریکارڈ میں تیسری قسم کے مدارس کی فہرست زیادہ لمبی ہے اور دینی مدارس کے مجموعی نظام کے بارے میں سرکاری محکموں کی رائے قائم ہونے میں یہی فہرست بنیاد بن رہی ہے۔ پھر چند بڑے اور معیاری دینی مدارس کو چھوڑ کراکثر و بیشتر دینی مدارس نے عوامی چندہ کے حصول کے لئے جو طریقے کچھ عرصہ سے اختیار کر لئے ہیں ، انہوں نے چندہ دینے والے اصحابِ خیر کو پریشان کردیا ہے اور اس سے مدارس کی نیک نامی اور اعتماد مجروح ہورہا ہے ۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے کاروباری شہروں میں رمضان المبارک کے دوران مساجد اور دکانوں پر دینی مدارس کے سفیروں کی جو یلغار ہوتی ہے اور لوگوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے گفتگو کا جو اسلوب