کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 52
کہ جس طرح دینی مدارس کے نظام نے برطانوی استعمار کے دور میں اعتقادی اور معاشرتی فتنوں کا دلجمعی سے مقابلہ کیا تھا، آج بھی وہ مغربی فلسفہ کی نئی اور تازہ دم یلغار کے سامنے خم ٹھونک کر میدان میں آئے گا، مگر چند استثناؤں کو چھوڑ کر دینی مدارس میں اس چیلنج کے اِدراک کی فضا ہی سرے سے موجودنہیں جو بلا شبہ ایک بہت بڑا المیہ ہے!!
دینی مدارس سے چوتھی شکایت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اساتذہ اور طلبہ کو گفتگو اور مباحثہ کے نئے اُسلوب اور ہتھیاروں سے روشناس نہیں کرایا۔ فتویٰ اور مناظرہ کی زبان قصہ پارینہ بن چکی ہے مگردینی مدارس بلکہ ہمارے منبر و محراب پر بھی ابھی تک اسی زبان کا سکہ چلتا ہے۔ اخبارات پڑھنے والے اور ٹی وی دیکھنے والوں کے لئے ہماری زبان اور اُسلوبِ بیان دونوں اجنبی ہوچکے ہیں مگر وہ کوئی پروا کئے بغیر اسی ڈگر پر قائم ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر دینی مجالس میں تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ آج کی زبان منطق و استدلال کی زبان ہے، مشاہدات کی زبان ہے اور انسانی حقوق کے حوالے سے گفتگو کی زبان ہے مگر دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت اس زبان سے ناآشنا ہے اور ستم بالائے ستم کہ اچھا بولنے اور اچھا لکھنے والوں کا تناسب جو دینی حلقوں میں پہلے ہی بہت کم تھا، مزیدکم ہوتا جارہا ہے۔ انگلش اور عربی تو رہی ایک طرف، اُردو زبان میں اپنے مافی الضمیر کو اچھی تحریر کی صورت میں پیش کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایک پختہ کار عالم دین نے شکایت کی کہ فلاں قومی اخبار کو میں نے درجنوں مضامین بھجوائے ہیں ، ان میں سے ایک بھی شائع نہیں ہوا۔ میں نے اس اخبار کے ایڈیٹر سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جو مضمون ہمیں پورا ازسر نو لکھنا پڑے، اسے شائع کرنے کا تکلف ہم کس طرح کرسکتے ہیں ؟
دینی مدارس سے پانچویں شکایت یہ ہے کہ دینی اور اخلاقی تربیت کا ماحول جو عرصہ پہلے ان مدارس میں قائم رہا ہے، وہ ختم ہوتا جارہا ہے اور گنتی کے چند اداروں کے سوا دینی مدارس کی اکثریت ایسی ہے جن میں طلبہ کی فکری، دینی اور اخلاقی تربیت کا نظام موجود نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے فضلا کی اکثریت کے ذہنوں میں مشنری جذبہ کے طور پر کوئی واضح اور متعین مقصد ِزندگی نہیں ہوتا اور اگر کسی کے ذہن میں کوئی مقصد ہو بھی تو اس کے مطابق اس کی تربیت نہیں ہوتی اور اس کے نقصانات بھی قدم قدم پر سامنے آرہے ہیں ۔
دینی مدارس سے چھٹی شکایت یہ ہے کہ ان کا باہمی ربط و مشاورت کا نظام انتہائی کمزور ہے۔ پہلے تو بالکل نہیں تھا مگر کچھ عرصہ سے تمام مذہبی مکاتب ِفکر کے مدارس نے اپنے اپنے ’وفاق‘ قائم کرلئے ہیں جو