کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 51
ہے کہ جس طرح دوسرے شعبوں میں ’اَن کوالیفائیڈ‘ افراد کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کوالیفائیڈ افراد کی فراہمی پر زور دیا جاتا ہے، امامت و خطابت اور دینی تعلیم کے شعبہ میں بھی ان کوالیفائیڈ افراد کا تناسب کم سے کم کرنے اور بالآخر اسے ختم کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے اور جس طرح ملک میں خواندگی کا تناسب بہتر بنانے کے لئے بجٹ مخصوص کیا جاتا ہے، دینی شعبہ میں کوالیفائیڈ افراد کا تناسب بڑھانے کے لئے دینی مدارس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور قومی تعلیمی بجٹ میں ان کے لئے معقول حصہ مختص کیا جائے۔
دینی مدارس سے دوسری شکایت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے مختلف شعبوں بالخصوص عدلیہ میں مطلوبہ معیار کے رجالِ کار کی فراہمی کو دینی مدارس کے نظام نے اپنے مقاصد میں شامل نہیں کیا۔ یہ کام بھی اگرچہ اصلاً ریاستی نظامِ تعلیم کا تھا لیکن ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ریاستی نظامِ تعلیم نے اس سمت سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی اور اس کے بعد اس خلا کو پر کرنے کے لئے لوگوں کی نظریں بہرحال دینی مدارس کی طرف اُٹھتی ہیں ۔ اگر دینی مدارس اپنے نصابِ تعلیم کا از سر نو جائزہ لے کر اسلام کو بطورِ نظام زندگی دوسرے مروّجہ نظاموں کے ساتھ تقابل کے ساتھ پڑھانے کا اہتمام کرتے اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے حدیث و فقہ کے ابواب کو ضروری اہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتا تو دینی مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کرام اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے تربیت یافتہ اور شعوری کارکن ثابت ہوتے اور اس کے ساتھ اگر تجارت، عدالت، انتظامیہ اور دیگر شعبوں کے افراد کے لئے ہلکے پھلکے کورسز تیار کرکے انہیں دینی مدارس کے تعلیمی دائرہ میں شریک کرلیا جاتا تو اسلامی نظام کے لئے رجالِ کار کی فراہمی کی ایک اچھی بنیاد مل سکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس کے نتائج آج معاشرہ میں فکری انتشار اور اخلاقی انار کی کی صورت میں سب کے سامنے ہیں ۔
دینی مدارس سے تیسری شکایت اسلام کے بارے میں مغربی لابیوں اور ورلڈ میڈیا کے منفی پراپیگنڈہ کی صورت میں سامنے آنے والے چیلنج کو نظر انداز کرنے کی ہے۔ آج اقوامِ متحدہ کے چارٹر، جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قرار دادوں اور بنیادی حقوق کے مغربی تصورات کے حوالہ سے اسلامی احکام اور قوانین کا مذاق اڑایا جارہا ہے، جرائم کی شرعی سزاؤں کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جارہا ہے۔ارتد اد اور توہین رسالت پر قدغن کے بارے میں اسلامی قوانین کو آزادی ٴرائے کے بنیادی حق سے متصادم کہا جارہا ہے اور دنیا میں کسی بھی اسلامی معاشرہ کے قیام کو قرونِ وسطیٰ کے ظالمانہ دور کی واپسی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اس چیلنج کا سامنا کرنے اور آج کی زبان میں اسلام کو انسانی حقوق کے علمبردار اور محافظ نظام کے طور پر پیش کرنے کے لئے لوگوں کی نظریں ان دینی اداروں کی طرف اٹھتی ہیں اور عام مسلمان یہ توقع کرتا ہے