کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 50
کی بات ہے جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے بعد ضلع اور تحصیل کی سطح پر شرعی قاضی مقرر کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور قاضی کورس کے لئے آرڈیننس کے نفاذ کی تیاری ہورہی تھی۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب راولپنڈی کینٹ کے ملٹری ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سلسلہ میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ مجھے پریشانی یہ تھی کہ پاکستان بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر مقرر کرنے کے لئے اس قدر تربیت یافتہ قاضی کہاں سے آئیں گے؟ اگرچہ اس زمانے میں بعض دینی اداروں نے قاضیوں کی تربیت کے لئے چار ماہ یا چھ ماہ اور ایک سال کے کورس شروع کررکھے تھے، لیکن میں ان سے مطمئن نہیں تھا کہ قاضی بہرحال قاضی ہوتا ہے اور سال چھ ماہ کا کورس کسی شخص کو قاضی نہیں بنا سکتا اور اگر ہم نے پاکستان میں قاضی کورٹس کا آغاز اس طرح کے نیم قاضیوں سے کیا تو اسلام کے عدالتی نظام کا پہلا تاثر ہی اپنے نتائج کے لحاظ سے نقصان کا باعث بن سکتا ہے، چنانچہ میں نے مولانا مفتی محمود سے سوال کیا کہ حضرت! یہ قاضی کہاں سے آئیں گے؟ مفتی صاحب نے جواب دیا کہ جن مدرّسین نے دینی مدارس میں ’ہدایہ‘ کی سطح تک کتابیں چار پانچ سال پڑھائی ہیں وہ نظامِ قضا کے مختصر کورس کے بعد قضا کا منصب سنبھال سکتے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ میں اسے تسلیم کرتا ہوں ، لیکن پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضی مقرر کرنے کے لئے پاکستان کے اضلاع اور تحصیلوں کی تعداد کے مطابق اس سطح کے مدرّسین مل جائیں تو انہیں عدالتوں میں بھیج کر دینی مدارس میں ’ہدایہ‘ کی سطح کی کتابیں کون پڑھائے گا؟ اس سوال کے جواب میں حضرت مفتی محمود صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ٹال دیا۔ لیکن میں نے ان کے چہرے کی سلوٹوں سے اندازہ لگالیا کہ اس سوال نے خود انہیں پریشان کردیا ہے۔
دینی مدارس کو ابھی تک اپنے وجود کے تحفظ اور اپنے کردار کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے تحفظات کی فضا کا سامنا ہے اور وہ اپنے تیار کردہ افراد کو مسجد و مدرسہ تک محدود رکھنے کے لئے کچھ تحفظات اختیار کئے ہوئے ہیں تو ان کی اس مشکل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر ایک اور پہلو سے بھی اس مسئلہ کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ وہ یہ کہ اس وقت پاکستان بھر میں مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے والے افراد میں ’مستند‘ کا تناسب کیا ہے؟ اگر اس کا غیر جانبدارانہ سروے کیا جائے تو غیر مستند ائمہ وخطبا کا تناسب مستند حضرات سے کہیں زیادہ ہوگا اور ہمارے ہاں مذہبی معاملات میں خرابیوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے، جس کی طرف اکثر حضرات کی توجہ نہیں ہے اور جو اہل دانش اس کا اِدراک رکھتے ہیں وہ کسی فتوے کی زد میں آجانے کے خوف سے اس کا اظہار نہیں کرتے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اور اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کے ناطے سے سٹیٹ کی ذمہ داری