کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 5
اخبارات میں جو خبریں شائع ہوتی ہیں ، وہ غلط ہیں ۔ ہم مدارس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ کریک ڈاؤن کی خبریں جھوٹا پراپیگنڈہ ہیں ۔ انہوں نے کہا میں تو باہر کے دورے کے دوران بھی خود مدارس کی تعریف کرتا ہوں ، میں کہتا ہوں کہ یہ بہترین ویلفیئر ادارے ہیں ، مفت میں قوم کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں ، دس لاکھ بچوں کی کفالت کرتے ہیں ۔ ہماری خواہش ہے کہ جس طرح دوسری تعلیم کے فضلا ہر سطح پر ملازمت کرتے ہیں ، اسی طرح دینی مدارس کے فضلا کو بھی ملازمت کے مواقع حاصل ہوں ۔ نئے آرڈیننس کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ’مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس‘ نافذ کیا ہے، اس کے تحت ماڈل دینی مدارس قائم کئے جائیں گے۔ جو لوگ چاہیں ،اس سے منسلک ہوجائیں اور جو چاہیں آزادانہ طور پر کام کریں ۔ جنرل (ریٹائرڈ) معین الدین حیدر کے بیانات کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسی یہ نہیں ہے۔ انہوں نے جنگ ِافغانستان کے متعلق حکومتی پالیسی کا دفاع بھی کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے اس تفصیلی خطاب کے بعد چند علماء نے اظہارِ خیال بھی کیا۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مدیر اور محدث کے مدیر اعلیٰ حافظ عبدالرحمن مدنی نے جنرل پرویز مشرف کے خیالات کو عمل سے قطع نظر تجریدی طور پر سراہا اور کہاکہ ان عالی خیالات کے باوصف ہمیں اپنے ملی کردار کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانیوں کا انفرادی کردار اچھا تو نہیں لیکن باقی اسلامی دنیا کے مقابلے میں ان کا اسلامی جذبہ ہمیشہ قابل قدر رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر حلقے جن مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو اُچھالتے رہتے ہیں ، وہ مسجد کی حد تک محدود ہیں ۔ جہاں تک معاشرے کی اسلامی تعمیر اور ملک میں نفاذِ شریعت کا تعلق ہے، اس میں تمام مسالک اور فرقے ہم آواز ہیں ۔ اس لئے ملک میں نفاذِ شریعت کے مسئلہ میں دینی حلقوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذا حکومت کے ذمہ داروں کو نفاذِ شریعت کے سلسلے میں سیکولر حلقوں کے منفی پراپیگنڈہ کو زیادہ وقعت نہیں دینی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کا عالمی کردار ہماری ملی صورتحال کی کوئی اچھی تصویر کشی نہیں کرتا۔ میں نے گذشتہ دنوں بیرونِ پاکستان چند ممالک کا دورہ کیا ہے، جس میں مجھے اسلامی دنیا کے اہم ممالک کی پاکستان کے بارے میں تشویش کا شدید احساس ہوا۔ انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدات کے حوالہ سے بتایا کہ قبل ازیں جس پاکستان کو اسلامی دنیا میں حرمین شریفین کا سا تقدس اور احترام حاصل تھا، اسلامی نیوکلیئر پاور ہونے کی بنا پر پاکستانی کو عالم اسلام کا محافظ سمجھا جاتا تھا مگر جس طرح ہم نے اپنے ہمسایہ مسلمان ملک افغانستان کی اہم حیثیت کو نظر انداز کرکے امریکی سپر پاور کے سامنے سپراندازی کی