کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 49
طرح کسی عالم دین کے لئے بھی یہ ضروری نہیں کہ اس نے میڈیکل سائنس، انجینئرنگ یا کسی اور شعبہ میں بھی مہارت رکھتا ہو۔ تاہم ایک فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ جہاں تک کسی شعبہ میں پوری مہارت اور مکمل تعلیم کا تعلق ہے ، وہ تو کسی دوسرے شعبہ کے فرد کے لئے ضروری نہیں ہے لیکن بنیادی اور جنرل معلومات ہر شعبہ کے بارے میں حاصل ہونی چاہئیں اور اس کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی ڈاکٹر یا انجینئر کے لئے عالم دین ہونا ضروری نہیں مگر دین کی بنیادی معلومات و مسائل سے آگاہی ان کے لئے لازمی ہے تاکہ وہ اپنے شعبہ میں دینی احکام کے دائرہ کو ملحوظ رکھ سکیں ، اسی طرح ایک عالم دین کے لئے ڈاکٹر یا انجینئر ہوناضروری نہیں البتہ ان شعبوں کے بارے میں بنیادی معلومات علماء کو ضروری طور پر حاصل ہونی چاہئیں تاکہ وہ ان شعبوں کے افراد کی دینی راہنمائی صحیح طو رپر کرسکیں ۔ اسی طرح انگریز ی آج کی بین الاقوامی زبان ہے، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف صف آرا عالمی میڈیا کی زبان ہے اور پاکستان کی دفتری اور عدالتی زبان ہے۔ اس لئے عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سے کماحقہ بہرہ ور ہونا علماء کے لئے آج کے دور میں ضروری ہے۔ اس بنا پر ہم دینی مدارس کے نصابِ تعلیم میں کسی بنیادی تبدیلی یا تخفیف کی حمایت تو نہیں کریں گے البتہ اس میں انگریزی زبان اور میڈیکل سائنس، جنرل سائنس، انجینئرنگ اور دیگر عصری علوم کے بارے میں بنیادی معلومات کی حد تک نصاب کے اضافے کو ضروری سمجھتے ہیں اور دینی مدارس کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہئے۔ اس سلسلہ میں دینی مدارس کی مشکلات کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً ان کی ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ جو طلبہ انگریزی یا دیگر عصری علوم سے آراستہ ہوجاتے ہیں اور سرکاری اسناد حاصل کرلیتے ہیں ان کی اکثریت مساجد اور دینی مدارس کی بجائے ملازمت کے لئے سرکاری اداروں کا رخ کرتی ہے جس کی وجہ سے مساجد و مدارس کو ضرورت اور ان کے معیار کے مطابق ائمہ، خطباء اور مدرّس میسر نہیں آتے۔ ظاہر بات ہے کہ مساجد و مدارس میں مشاہروں اور دیگر سہولتوں کا مروّجہ معیار کسی طرح بھی اس درجہ کا نہیں ہے کہ کوئی خطیب، امام یا مدرّس اطمینان کے ساتھ ایک عام آدمی جیسی زندگی بسر کرسکے۔ پھر یہاں ملازمت کا تحفظ بھی نہیں ہے، ا س لئے جسے سرکاری ملازمت میں جانے کا راستہ مل جاتا ہے وہ لازماً ادھر کا رخ کرے گا اور مساجد و مدارس کے لئے رجالِ کار کے فقدان اور خلا کا مسئلہ پریشان کن صورت اختیار کرجائے گا۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی محمود کے ساتھ ایک گفتگو کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہو۔ یہ اس دور