کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 48
نظام سیکولر اور اسلام مخالف عناصر کی کمین گاہ ثابت ہوا اور پاکستان میں اسلامی احکام و تعلیمات کی ترویج کو روکنے اور اس کی اسلامی حیثیت کو غیر موٴثر بنانے میں اس نظام تعلیم نے مضبوط مورچے کا کام دیا، جبکہ اس کے برعکس دینی مدارس نے جو ذمہ داریاں ۱۸۵۷ء کے بعد قبول کی تھیں ، ان پر وہ آج بھی پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن ہیں اور ان کے طریقہ کار اور دائرۂ عمل میں کوئی فرق نمودار نہیں ہوا بلکہ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے کہ اسلامی علوم کی حفاظت و ترویج اور مساجدو مدارس کے لئے ائمہ و اساتذہ کی فراہمی کے لئے دینی مدارس کے کردار کا تسلسل کسی خلا اور تعطل کے بغیر بدستور قائم ہے تو ریاستی نظام تعلیم کے تقابل کے تناظر میں دینی مدارس کا یہ کردار بڑے سے بڑے قومی اعزاز کا مستحق ہے، کیونکہ آج بھی ان دو مقاصد کے حوالے سے معاشرہ کی ضروریات یہی دینی مدارس پوری کررہے ہیں اور اگر دینی مدار س اپنا یہ کردار چھوڑ دیں تو مساجد و مدارس کے لئے ائمہ و اساتذہ کی فراہمی اور اسلامی علوم کی ترویج و حفاظت کے شعبہ میں جو خلا واقع ہوگا، وہ کسی باشعور مسلمان کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
دینی مدارس کے موجودہ کردار اور خدمات کے بارے میں عام طور پر شکایات کا اظہار کیا جاتاہے اور شکوہ کرنے والوں میں ہم بھی شامل ہیں ، لیکن ان شکایات اور دینی مدارس کی مشکلات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ صحیح صورتِ حال سامنے آسکے۔
دینی مدارس سے سب سے بڑی شکایت یہ کی جاتی ہے کہ ان کے نصاب میں آج کے علوم شامل نہیں ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو انگریزی، ریاضی، سائنس، انجینئرنگ اور دیگر عصری علوم کی تعلیم نہیں دیتے۔ یہ شکایت ایسی ہے جسے نہ تو پوری طرح قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ مسترد کیا جاسکتا ہے، کیونکہ جہاں تک عصری علوم کی مکمل تعلیم کا سوال ہے وہ نہ تو دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ پوری طرح شامل کی جاسکتی ہے اور نہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ شامل اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ مستند اور پختہ عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے فارسی و عربی، صرف و نحو، قرآن و حدیث ،فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب اورمنطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصاب ہے جسے پوری طرح پڑھے بغیر کوئی شخص ’عالم دین‘ کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتا اور یہ نصاب بایں قدر بھاری بھر کم ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے علم یا فن کے مکمل نصاب کو شامل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر اس نصاب میں کمی کی جائے تو دینی علوم میں مہارت کا پہلو تشنہ رہ جاتا ہے اور ضروری اس لئے نہیں ہے کہ یہ تخصصات اور سپشلائزیشن کا دور ہے۔ اب ہرشعبہ کے لئے الگ ماہرین تیار ہوتے ہیں اور کسی ایک شعبہ کے ماہر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ دوسرے شعبہ کی مہارت بھی رکھتا ہو، مثلاً کسی انجینئر کے لئے قطعی طور پر یہ ضروری نہیں کہ اس نے میڈیکل علم بھی حاصل کررکھا ہو، اسی