کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 47
کے عقائد و افکار، معاشرت اور اسلامی علوم و فنون کی حفاظت کی بلکہ تحریک ِآزادی اور تحریک پاکستان کو نظریاتی راہنما مہیا کئے جن میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا سید محمدداود غزنوی، سید عطا اللہ شاہ بخاری اور ان کے ہزارہا رفقا بطورِ خاص قابل ذکر ہیں ۔
دورِ غلامی میں دینی مدارس کی حکمت عملی وقتی تھی جس کے لئے انہیں بہت سے تحفظات اختیار کرنے پڑے اور اگر وہ ان تحفظات کے بارے میں سختی اختیار نہ کرتے تو اپنے بنیادی مقاصد کی طرف اس قدر کامیابی کے ساتھ پیش رفت نہ کرپاتے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد صورت حال خاصی تبدیل ہوگئی اور آزادی کے حوالہ سے نئے تقاضے اور ضروریات سامنے آگئیں جن کے بارے میں دینی مدارس کی تمام تر مجبوریوں اور مشکلات کے باوجود بہر حال یہ کہنا پڑتا ہے کہ نئی ضروریات اور تقاضوں کو اپنے مقاصد میں شامل کرنے کے لئے وہ ابھی تک تیار نہیں ہوئے جس کے نقصانات قومی سطح پر بہت دیر تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔
دینی مدارس ، آزادی ٴوطن کے بعد
قیامِ پاکستان کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ مساجد و مدارس کے لئے رجالِ کار کی فراہمی اور اسلامی علوم کی ترویج و تحفظ کی ذمہ داری ریاستی نظام تعلیم کے سپرد کردی جاتی اور دینی مدارس کے الگ نظام کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی، لیکن ریاستی نظام تعلیم نے اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ ریاستی نظامِ تعلیم نے قیامِ پاکستان کے بعد آزادی اور ایک اسلامی ریاست کے مقاصد کے حوالہ سے اس قدر مایوس کیا کہ آزاد قوموں کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ :
٭ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی نظریاتی ریاست کی حیثیت دینے اور ایک فلاحی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے فوج، بیوروکریسی، عدلیہ اور دیگر قومی شعبوں میں اسلامی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افرادِ کار مہیا کرتا۔
٭ معاشرہ کے عام افراد کو قرآن و سنت کی ضروری تعلیم سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرتا۔
٭ مساجد اور دینی مکاتب کا نظام چلانے کے لئے ائمہ اور مدرّسین کی فراہمی کی ذمہ داری قبول کرتا۔
٭ اسلامی تعلیمات و احکام کو عالمی برادری کے سامنے نئے انداز اور اسلوب سے پیش کرنے کے لئے اسکالرز تیار کرتا اور انہیں جدید علوم اور فلسفہ کے چیلنج کا سامنا کرنے کی تربیت دیتا۔
لیکن ریاستی نظام تعلیم نے نہ صرف یہ کہ ان ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ عملاً یہ