کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 46
دارالعلوم کے سالانہ اخراجات کا بار، ہم خود اٹھائیں گے۔ مولانا حافظ محمداحمد نے دیوبند واپسی پر یہ پیش کش دارالعلوم کے صدر مدرّس شیخ الہند مولانا محمود حسن کے سامنے رکھی۔ انہوں نے خود کوئی مشورہ دینے کی بجائے حافظ محمد احمد صاحب کو دارالعلوم کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں بھیج دیا جو اس وقت بقید ِحیات تھے۔ انہوں نے مولانا حافظ محمد احمد سے نظام حیدر آباد کی پیش کش کے بارے میں سن کر جو جواب دیا وہ حضرت مولانا مفتی عبدالواحد رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے الفاظ میں یوں تھا : ”بھاڑ میں جائے حیدر آباد کی ریاست ! ہم اس ریاست کو چلانے کے لئے طلبہ کو نہیں پڑھا رہے۔ ہم تو اس لئے پڑھاتے ہیں کہ مسجدیں اور قرآن کے مکاتب آباد رہیں اور مسلمانوں کو نمازیں اور قرآن کریم پڑھانے والے ائمہ اور استاذ ملتے رہیں ۔“ یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس میں انگریزی تعلیم کا داخلہ بند رہا۔ اگر حضرت گنگوہی ہی اس پیش کش کو قبول کرلیتے تو علماء اور دینی طلبہ لازماً سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے اور دینی مدارس سے فارغ ہونے والوں کی ایک بڑی کھیپ بھی اسی طرف منتقل ہوجاتی جس سے دینی مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد فوت ہوجاتا۔ جبکہ دینی مدارس کے نظام کا آغاز کرنے والوں کے ذہن میں سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ایسی کھیپ تیار ہو جو قرآن پاک کے مکاتب کو آباد رکھے، اس لئے حکمت ِعملی کے تحت عملاً ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات مسجد و مدرسہ کے سوا کسی دوسری جگہ نہ کھپ سکیں ۔ چنانچہ اس مقصد کے حوالے سے یہ حکمت ِعملی کامیاب رہی۔ اس کے نتیجہ میں برصغیر کے طول و عرض میں دینی مدارس و مکاتب کا جال بچھ گیا اور مساجد میں ائمہ و خطباء کی کھیپ بھی فراہم ہوتی رہی۔ دینی مدارس کے منتظمین نے ان مقاصد کے حصول کے لئے کیا کیا جتن کئے؟ یہ ایک الگ داستان ہے جس کی تفصیلات کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے تاہم اس قدر عرض کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے سہولتوں کی زندگی ترک کرکے فقر و فاقہ اور تنگی و ترشی کی زندگی اختیار کی۔ لوگوں سے صدقات و خیرات مانگ کر مدارس کو آباد رکھا۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو محلہ کے ایک ایک گھر سے روٹیاں مانگنے کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ اس لئے یہ بات بلا جھجھک کہی جاسکتی ہے کہ علماء کے اس طبقہ نے اپنی ’عزتِ نفس‘ تک کی قربانی دے کر معاشرہ میں قرآن و حدیث کی تعلیم اور اسلامی عقائد و معاشرت کو برقرار رکھا۔ ورنہ عالم اسباب میں اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو سپین کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی (نعوذ باللہ) اسلام ایک قصہ پارینہ بن چکا ہوتا۔ صدقہ و خیرات، گھر گھر سے مانگی ہوئی روٹیوں اور عام لوگوں کے چندوں کی بنیاد پر قائم ہونے والا دینی مدارس کا یہ نظام برطانوی استعمار کی نظریاتی، فکری اور تہذیبی یلغار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لئے ایک مضبوط حصار ثابت ہوا اوراس نظام نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند، بنگلہ دیش کے مسلمانوں