کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 45
دانش نے مستقبل کی طرف توجہ دی۔ سرسید احمدخان نے ایک محاذ سنبھال لیا اور دفتری وعدالتی نظام میں مسلمانوں کو شریک رکھنے کے لئے انگریزی تعلیم کی ترویج کو اپنا مشن بنا لیا، جبکہ دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی تعلیم کا محاذ فطری طور پر علماءِ کرام کے حصہ میں آیا اور اس سلسلہ میں سبقت اور پیش قدمی کا اعزاز مولانا محمدقاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ سرسید احمدخان اور ان کے رفقا نے علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کے کالجوں کا آغاز کیا اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ سرسید احمدخان اور مولانا محمد قاسم نانوتوی دونوں ایک ہی استاذ مولانا مملوک علی نانوتوی کے شاگرد تھے اور دونوں نے مختلف سمتوں پر تعلیمی سفر کا آغاز کیا جو آگے چل کر دو مستقل تعلیمی نظاموں کی شکل اختیار کرگئے۔ ابتدا میں سرسید احمد خان کے انگریزی کالج اور مولانا محمد قاسم نانوتوی کے مدرسہ عربیہ دونوں کی بنیاد عوامی چندہ اور امدادِ باہمی کے طریق کار پر تھی، لیکن بعد میں کالج اور اسکول کے نظام کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی اور رفتہ رفتہ پورا نظام سرکار کی تحویل میں آکر مصارف و اخراجات کے جھنجھٹ سے آزاد ہوگیا، جبکہ دینی مدارس سرکاری سرپرستی سے آزاد رہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے اخراجات و ضروریات کے لئے ہر دور میں عوامی چندہ پر انحصار کرنا پڑا اور آج بھی یہ صورتِ حال بدستور قائم ہے۔ دینی مدارس کے اس آزادانہ اور متوازی نظام کے بنیادی مقاصد درج ذیل تھے:
٭ قرآن و سنت، عربی اور دیگر اسلامی علوم کی حفاظت اور مسلم معاشرہ کا ان سے تعلق برقرار رکھنا۔
٭ مساجد و مدارس کے نظام کو قائم رکھنا اور ان کے لئے ائمہ، خطباء اور مدرّسین کی فراہمی۔
٭ یورپ کی نظریاتی اور تہذیبی یلغار کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی طرزِ معاشرت اور عقائد کی حفاظت․
٭ جدید عقلیت کے پیدا کردہ اعتقادی و نظریاتی فتنوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا۔
ان مقاصد کے حصول کے لئے ضروری تھا کہ یہ مدارس سرکار کے اثر سے آزاد رہیں اور ایسا تعلیمی نصاب و نظام اختیار کریں کہ اس کے تیار کردہ افراد صرف ان کے مقاصد کے خانہ میں فٹ ہوسکیں ۔ اس بات کو زیادہ بہتر طور پر واضح کرنے کے لئے ایک واقعہ بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو میں نے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبدالواحد رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی سنا۔ ان کی روایت کے مطابق یہ اس دور کا واقعہ ہے جب دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا محمد قاسم نانوتوی کے فرزند مولانا حافظ محمداحمد تھے۔ اس دور میں دارالعلوم کے فارغ التحصیل کچھ نوجوان حیدرآباد دکن کی ریاست میں ملازمتوں پر فائز ہوئے اور کارکردگی اور صلاحیت کے لحاظ سے دوسرے ملازمین سے بہتر ثابت ہوئے۔مولانا حافظ محمداحمد کے دورۂ حیدر آباد کے موقع پر نظام حیدر آباد نے انہیں پیش کش کی کہ اگر دارالعلوم اپنے نصاب میں ہماری ضروریات کے مطابق بعض مضامین کا اضافہ کردے تو ہم فضلائے دارالعلوم کو ملازمتیں دیں گے اور