کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 41
٭ سوال:زوجین بذریعہ طلاق ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں ، ان کی بالغ اولاد بوجوہ والدہ کے پاس ہے۔ جن اسباب و حالات کی بنا پر طلاق واقع ہوئی، ان میں اولاد کا بھی ایک کردار ہے۔ اب باپ اولاد کواپنے پاس رکھنا چاہتا ہے اور تمام فرائض شرعی (ان کی شادی، ملازمت اور جائیداد کی تولیت وغیرہ) خود انجام دینے کا خواہشمند ہے، مگر اولاد اپنی مطلقہ ماں کی حمایت میں اپنے والد کو والد ماننے اور اس کی تمام تر جائیداد کو اپنی جائیداد تسلیم کرنے اور لینے سے علیٰ الاعلان انکاری ہے۔اس صورت میں باپ کو اپنی اولاد کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے اوراپنی جائیداد کے بارے میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ (ایم صدیق مان، گوجرانوالہ) جواب:بلاشبہ اولاد کا انتساب باپ کی طرف ہے، بوقت ِضرورت وہی اس کے نفقہ اورخرچہ کا ذمہ دار ہے۔ اولاد کو چاہئے کہ والد کے حق کی ادائیگی میں اس کا ساتھ دیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوسکے۔اور اگر وہ اس کے لئے آمادہ نہ ہوں تو وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب اوراللہ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔ جبکہ دوسری طرف والدہ کے حق کی ادائیگی میں بھی بخل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر والدہ نیکی میں کوتاہی کرے تو اولاد کو چاہئے کہ والدہ کو اچھا کردار اختیار کرنے کی تلقین کرے، نہ کہ اس کی حمایت میں اپنے آپ کو برباد کرلیا جائے۔ تاہم والد کو چاہئے کہ اللہ کے حضور بکثرت ان کی ہدایت کے لئے دعا گو ہو۔ زندگی میں والد کو اپنی جائیداد میں تصرف کا کل اختیار ہے لیکن اولاد کو محروم کرنے کی نیت سے نہیں ۔ اولاد نافرمانی کے باوجود اس کی جائیداد سے محروم نہیں ہوگی کیونکہ شریعت میں جن اسباب کی بنا پر ورثا کو محروم کیا جاسکتا ہے، وہ ان میں نہیں پائے جاتے اور وہ تین ہیں : غلامی، قتل، اختلافِ دین ۔ واضح ہے کہ والد کے دل و دماغ میں جب اولاد کی خیرخواہی کا احساس پیدا ہوگا تو یقینا وہ اولاد کیلئے رشد وہدایت کی دعا کرے گا پھر بھی اولاد اس کی بات نہیں مانتی تو وہ ربّ کے حضور بری الذمہ قرار پائے گا ۔ ٭ سوال:ایک شخص نے حالت ِنشہ میں اپنی بیوی کو ایک ہی وقت میں دو دفعہ طلاق طلاق کہہ دی بعد میں صلح ہوگئی۔ عرصہ دو سال بعد گھریلولڑائی میں پھر ایک مرتبہ طلاق کہہ دیا، کتاب و سنت کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ کیا تین طلاقیں ہوگئیں یا رجوع ہوسکتا ہے؟ جواب:نشہ کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی، چنانچہ امام بخاری ترجمة الباب کے عنوان کے تحت ذکر فرماتے ہیں : وقال عثمان ليس لمجنون ولا لسکران طلاق وقال ابن عباس طلاق السکران والمستکره ليس بجائز“ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”دیوانے اور نشہ والے کی طلاق واقع نہیں ہوتی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نشے والے اور جس پر زبردستی کی گئی ہو ، ہردو کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذانشہ کی حالت میں دی گئی طلاق تو واقع نہیں ہوئی البتہ بعد میں جوایک دفعہ طلاق کہا، وہ واقع ہوچکی ہے لیکن یہ طلاقِ رجعی ہے جس کا مطلب یہ کہ عدت کے اندر رجوع ہوسکتا ہے اور عدت گزرنے